بابو عمران قئریشی سہام
imran.tanveer@hotmail.com
قائد ملت خان لیاقت علی خان کا راہ حق میں ملک قوم کیلئے جان کا نذرانہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا سیاسی قتل تھا۔ 16اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی کے کمپنی باغ (جس کا نام بعدازاں لیاقت باغ رکھ دیا گیا) میں آپ قوم سے اہم امور پر خطاب کیلئے پہنچے تھے۔ہندوستانی افواج کے پاکستانی سرحدوں پر اجتماع سے پیداہونے والے خطرے کے پیش نظر اس عظیم الشان جلسے سے آپ کو خطاب کرنا تھا ، ابھی آپ برادران ملت! پوراکہہ بھی نہ پائے تھے کے مجمع سے سید اکبر نامی شخص نے پے درپے فائر کئے دوگولیا ں آپ کے سینے میں پیوست ہوگئیں اور آپ ڈائس پر گرگئے۔اسی حالت میں آپ کوکمبائنڈ ملٹری ہسپتال میں فوری طورپر پہنچایا گیا مگرآپ جابرنہ ہوسکے قاتل کو موقعہ پر ہی پولیس نے گولی مار کر ہلاک کردیا۔ ملک کے پہلے وزیر اعظم کے سیاسی قتل کے بعد وزیر خزانہ ملک غلام محمد گورنر جنرل پاکستان بنا دیئے گئے اور خواجہ ناظم الدین کو وزیر اعظم کی ذمہ داریاں سنبھالنا پڑیں۔اس سانحہ کے نتیجے میں جس آئی جی پولیس قربان علی کی جلسہ گاہ کے حفاظتی انتظاما ت کی ذمہ داری تھی انہیں بلوچستان کا گورنر بنادیاگیا۔
خان لیاقت علی خان کرنال بھارت کے ایک متمول گھرانے کے چشم وچراغ تھے ان کے والد کا نام خان رکن الدولہ شمشیر جنگ نواب رستم علی خان تھا۔ آپ کے خاندان کا سلسلہ نوشیرواں عادل سے ملتا ہے جو تقریباً پانچ سوسال پیشتر ہجرت کرکے ہندوستان پہنچا تھا۔ آپ کے والد ایک جاگیر دار نواب تھے جن کی جائداد کا بیشتر حصہ یوپی UPمیں تھا۔جس کی دیکھ بھال کیلئے اکثر وہیں رہتے۔ ان کے فرزند خان لیاقت علی خان نے بھی زیادہ وقت یوپی میں ہی گزارا۔ان کو تعلیمی ماحول گھر میں ہی میّسر تھا چنانچہ ابتدائی تعلیم گھر میں ہی حاصل کی۔ ایم۔اے۔ او کالج علی گڑھ سے جب گریجویشن کرلیا تو گھر والوں نے آئی سی ایس کرنے کا مشورہ دیا جو ان کو پسند نہ تھا۔ انگلستان جاکر قانون کی ڈگری حاصل کی اور پھر کافی عرصہ وہیں گزرا۔ ان دنو ں ہندوستانی سیاست زور وں پر تھی آپ نے اس میں بھر پور حصہ لیا اور تھوڑے ہی عرصہ بعد آپ کو انڈین سوسائٹی کا صدر منتخب کرلیاگیا۔ ہندستان واپس آکر ملکی سیاست میں بھرپور دلچسپی لینی شروع کردی اور یوپی اسمبلی کاالیکشن جیت کر اسمبلی کے ممبر منتخب ہوگئے۔ اس زمانے میں آپ کا تعلق ڈیمو کرٹیک پارٹی سے تھا۔ 1923ء میں آپ نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور پہلی دفعہ مسلم لیگ لاہور کے اجلاس میں شرکت کی ایس پی منین نے ان کے شاندار مستقبل کو بھانپ کر مسلم لیگ کا ابھر تاہوا ستارہ قرار دیاتھا۔ آپ نے یوپی کی قانون ساز مجلس کیلئے چودہ سال تک لگاتار انتخاب جیتنے کا ریکارڈ قائم کیا۔چھ ماہ تک آپ اس صوبائی مجلس قانون سازکے نائب صدر بھی رہے۔
خداداد صلاحیتوں کے باعث آپ کو کل ہند مسلم لیگ کا جنرل سیکرٹری چن لیاگیااور قائد اعظم محمد علی جناح نے ان کو اپنا دستِ راست قرار دیتے ہوئے فرمایا’’خان لیاقت علی خان نے اپنے فرائض کی انجام دیں میں دن رات ایک کردئیے اگر چہ نواب زادے ہیں لیکن وہ عام انسانوں کی طرح کام کرتے ہیں۔ میں دوسرے نوابوں کو بھی مشورہ دونگا کہ ان سے سبق حاصل کریں‘‘۔ 1940ء میں مرکزی اسمبلی کے رْکن منتخب ہوئے اور قیام پاکستان تک ممبر رہے۔ ان کو مسلم لیگ اسمبلی پارٹی کالیڈر چن لیاگیا۔ شملہ کانفرنس میں آ پ نے مسلم لیگ کے نمائندے کی حیثیت سے 1945ء میں شرکت کی بعد ازاں ہندوستان کی غلامی حکومت میں مسلم بلاک کی نمائندگی کرتے ہوئے وزارت خزانہ کا قلمدان سنبھال کر ایک ایسا بجٹ پیش کیا جس سے امیر طبقہ تو ناراض ہوا مگر اْسے غریبوں کا بجٹ قرار دے کر بے حد پسند کیاگیا۔
قیام پاکستان کے وقت آپ نے پہلے وزیر اعظم کے طور پر حلف اْٹھا یا۔ قائد اعظم کی وفات کے بعد ملکی ماملات کی ذمہ درایاں براہ راست آپ کے کندھوں پر آن پڑیں جنکو نہایت متانت، سمجھداری،سنجیدگی،اعلیٰ تنظیمی قابلیت اور روشن خیال رہنما کی حیثیت سے تقریباً چار سال تک نہایت خوش اسلوبی سے نبھاتے رہے آپ اس قدر مقبول رہنما تھے کہ آپ کو قائد ملت کہاجانے لگااور شہادت کے بعد قوم اب تک آپ کو شہید ملت کے نام سے یاد کرتی ہے۔ قائد اعظم کی وفا ت کے بعد ان لوگوں کے خدشات کو نہایت سمجھداری سے دور کیا جو سوچ رہے تھے کہ نہ جانے اب پاکستان قائم رہے گا بھی کہ نہیں۔ نوزائیدہ مملکت پاکستان کو بے پناہ مسائل درپیش تھے جن کو حل کرنے میں آپ کا کردار بے مثال ہے:۔
1۔ پنجاب میں مسلمانوں کے قتل عام کورکوانے میں اہم کردار اداکیا۔ نہرو لیاقت معاہدے پر دستحط کئے۔
2۔ پنجاب مہاجر کونسل کے چیئر مین کی حیثیت سے مہاجرین کی آباد کاری کے کام کی بذات خود نگرانی کی۔
3۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری کی ترقی کیلئے جاپان سے مشیری درآمد کی۔
4۔ پی آئی ڈی سی کا قیام عمل میں لایاگیا۔
5۔ کاغذ کے کارخانے لگائے گئے۔
6۔صنعتی ترقی کیلئے ریسرچ کونسل قائم کی گئی۔
7۔ تیل کی تلاش کیلئے غیرملکی فرموں سے معاہدے کئے گئے۔
8۔جوٹ بورڈ کے ذریعے نئی منڈیا ں تلاش کی گئیں۔زرمبادلہ کی کمی کو روئی اور پٹ لن کی برآمد سے پورا کیا اور معاشی حالت مستحکم کی۔
9۔کوئلہ چین سے درآمد کیاگیا۔
10۔ڈیزل انجن درآمد کرکے ہندوستانی کوئلہ پر انحصار ختم کردیا۔
11۔ خارجہ پالیسی میں اسلامی ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے کو بے حد ہمت دی۔
12۔ انڈونیشیا اور دوسرے ممالک جو آزادی کیلئے کو شاں تھے ان کی حمایت کرکے تعلقات خوشگوار کئے۔
13۔ سرحدی جھگڑوں کو ایک کمیشن کے ذریعہ طے کرایا۔ نہری پانی اور متروکہ جائداد وں کے مسائل پر مذاکرات کئے۔
14۔ اپنی قائد انہ صلاحیتوں سے افواج پاکستان کی تنظیم نوکی۔
بعض جدّت پسند اور روشن خیال عناصر نے یہ مطالبہ کردیا کہ مذہب ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہے اس کا ملکی سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے اور اسلامی نظام کا نعرہ توصرف پاکستان حاصل کرنے کیلئے لگایا گیاتھا۔ علماء کرام نے جب اس بات کو نوٹس لیا تو ان کے خلاف پر اپیگنڈہ مہم تیز ہوگئی۔ ادھر اسلامی دستور کے بارے میں شدید اختلاف رائے پایا جاتاتھا۔ خان لیاقت علی خان نے مختلف الخیال لوگوں کی ایک تشکیل دے کر اس کو بنیادی اصولوں پر مشتمل قرار داد مرتب کرنے کا کام سونپا ۔ کمیٹی نے جب اکثریت رائے سے مولانا شبیر احمد عثمانی کے نکتہ ء نظر کی حمایت کی تو سیکو لر ازم کے حامیوں نے ایک متبادل قرار داد دستور یہ پیش کردی لیاقت علی خان نے نظام اسلام کی قرار داد کو قابل عمل قرار دے کر اْ سکا متن ڈان اخبار میں شائع کرادیا۔آخر کار دستور یہ نے اْسی قرار داد کو 12مارچ 1949ء کو پاس کر دیا اور آپ نے قرار داد مقاصد پاس کراکے ان عناصر کو خاموش کرادیا جو سیکولر نظام حکومت کا پر چار کررہے تھے۔ اس سلسلہ میں ایک 24رکن کمیٹی قائم کی گئی سب کو قرار مقاصد کی روشنی میں دستور کے بنیادی اصول و ضع کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ عبوری رپورٹ کے سامنے آنے سے لوگوں میں اضطراب پیداہوگیا اور علمائے کرام کی طرف بھرپور مخالفت شروع ہوگئی کیونکہ مقبول ان کے سفارشات کا اسلام سے کوئی تعلق نہ تھا اور نہ ہی وہ جمہوری سفارشات تھیں۔ آپ نے کشمیر میں جنگ بندی کی سلامتی کونسل کی اس قرار داد کو تسلیم کرایا جس کے مطابق استصواب رائے کو مسئلہ کا واحد حل قرار دیاگیا ۔بھارت نے خود ہی سلامتی کونسل کا دروازہ کھٹکھٹایا اور قرار داد کو تسلیم کرنے کے باوجود اپنی فوجیں تاحال کشمیر سے نہ نکالیں اور منحرف ہوگیا۔ دولت مشترکہ کا ممبر ملک ہونے کے ناطے آپ نے برطانیہ جاکر بھارت پر دباؤ ڈالنے اور کشمیر سے فوجیں قرار داد کے مطابق نکالنے پر اہل انگلستان کو آمادہ کرنا چاہا مگر برطانوی حکومت نے ساتھ نہ دیا۔ امریکہ کی حمایت حاصل کرنے کیلئے دورہ کیا تین امریکن اسوقت نہرو کو ہندوستان کا جارج واشنگٹن سمجھتے تھے اسلئے وہاں سے بھی کامیابی اور حمایت حاصل نہ کرسکے۔ آپ کے دور میں راولپنڈی سازش کیس پکڑا گیا جسے انقلاب کا منصوبہ بتایا گیا تھا ۔ ٹریبونل نے سازیشوں کو مختلف مدت کی سزائیں سنائیں۔
عوام نے مسلم لیگ کی حکومت سے جو اْمیدیں وابستہ کررکھی تھیں وہ مسلم لیگ کے داخلی انتشار کی وجہ سے پوری نہ ہوسکیں۔لوگ مایوس ہونے شروع ہوگئے۔ اِس طرح مسلم لیگ کمزورہوگئی تو ایک سیاسی خلا نے جنم لیا۔سہروردی نے جناح عوامی لیگ میاں افتخار الدین نے آزاد پاکستان پارٹی قائم کرلی تھی اس طرح مسلم لیگ گویا نیم جان ہوکر رہ گئی ۔ قائد اعظم کی وفات کے بعد خان لیاقت علی خان ہی قوم کے اصل قائد تھے۔ جس کو بجا طورپر اور متفقہ طورپر پوری قوم کا قائد یعنی قائد ملت تسلیم کیاگیاتھا۔ ایس پی منین نے تو شروع میں ہی آپ کے شاندار مستقبل کی خوشخبری سنادی تھی۔بھارت نے جب جنگ نہ کرنے کا معاہدے کی پیش کش کی تو آپ نے ایسے معاہدے کو کشمیر کا مسئلہ حل ہوئے بغیر بے معنی سمجھتے ہوئے ٹھکرا دیاتھا۔آپ نے زندگی بھر کبھی اصولوں پر سودا بازی نہیں کی تھی اور نہ ہی کبھی بڑی سے بڑی طاقت کے سامنے جھکے تھے۔
شہید ملت کا راہ حق میں ملک و قوم کے کیلئے جان کا نذرانہ
Oct 16, 2024