لاہور+ اسلام آباد+ سندر (خصوصی نامہ نگار+ نمائندہ خصوصی+ نامہ نگار+ نوائے وقت رپورٹ) مولانا فضل الرحمن کی بلاول ہاؤس کراچی میں موجود صورتحال پر چیئرمین پی پی بلاول بھٹو سے ملاقات ہوئی ۔ جس میں آئینی ترمیم کے حوالے سے تفصیلی گفتگو ہوئی۔ فضل الرحمن آج بدھ کو لاہور میں محمد نواز شریف سے ملاقات کریں گے۔ ملاقات میں 26 ویں ترمیم پر گفتگو ہوگی اور مسودے کو حتمی شکل دینے کے حوالے سے تبادلہ خیال ہوگا۔ جبکہ پی ٹی آئی سے بھی ان کے رابطے ہوئے ہیں اور مولانا کے بقول اس بات کی پوری کوشش ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کو متفقہ طور پر اسمبلی میں پیش کیا جا سکے، بلاول بھٹو زرداری سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات میں ملکی سیاسی امور پر تبادلہ خیال کیا۔ دونوں رہنماؤں نے مجوزہ 26ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے بات چیت کی اور کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس خوش آئند ہے اور خطے کے استحکام میں معاون ہوگا۔ علاوہ ازیں بلاول بھٹو نے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ پیپلز پارٹی نے 2007 سے ہر الیکشن میں عدالتی اصلاحات کے نفاذ کے منشور کے ساتھ حصہ لیا ہے، جن میں وفاقی آئینی عدالتوں کا قیام شامل ہے۔ 2006 کا میثاق جمہوریت، پی پی پی کے 2013 اور 2024 کے انتخابی منشور میں وفاقی آئینی عدالت کا ذکر موجود ہے۔ آج کے کئی مخالفین ماضی میں وفاقی آئینی عدالت کی حمایت کر چکے ہیں۔ دوسری جانب رہنما پیپلز پارٹی شازیہ مری نے بتایا کہ ملاقات میں مولانا فضل الرحمن کا رویہ مثبت رہا۔ ملاقات میں مسودے سے متعلق برف پگھلی ہے۔ ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ جے یو آئی کے ساتھ پرانے مراسم پر گفتگو ہوئی۔ بعدازاں کراچی میں مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے فضل الرحمن نے کہا کہ ہماری دونوں جماعتوں کا آئینی ترمیم کے مسودے پر اتفاق ہو گیا ہے اور اتفاق رائے میں بلاول بھٹو کا بڑا کردار ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ آج فضل الرحمان‘ نواز شریف سے مل رہے ہیں اور ہمیں بھی کھانے کی دعوت دی گئی ہے۔ پرامید ہوں کہ جے یو آئی اور پیپلز پارٹی میں اتفاق ہوا ہے، بل کی بنیاد یہی اتفاق رائے بنے گا۔فضل الرحمن نے کہا ہم چاہیں گے نوازشریف کا بھی اتفاق رائے حاصل کیا جائے۔ کوشش ہو گی کہ بل میں ایسا اتفاق رائے پیدا ہو کہ اسے متفقہ آئینی ترمیم سمجھا جائے۔ اتفاق رائے کیلئے بلاول بھٹو کا اہم کردار ہے۔ پی پی کے ساتھ آئینی ترمیم کے ڈرافٹ پر اتفاق ہو گیا ہے۔ جو اتفاق رائے ہوا ہے کوشش ہو گی جے یو آئی، پی پی اور (ن) لیگ میں ہو جائے۔ بلاول بھٹو سے سنجیدہ گفتگو ہوئی ہے۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ فضل الرحمن اور ان کی ٹیم کے شکر گزار ہیں۔ کامیاب آئین سازی میں جے یو آئی اور پی پی کا کردار رہا ہے۔ اتفاق رائے میں مزید اتفاق رائے بنانے کی ضرورت ہے۔ امید ہے نواز شریف کے ساتھ اتفاق رائے ہو جائے گا۔ فضل الرحمن کی خواہش ہے پی ٹی آئی کے ساتھ بھی اتفاق رائے ہو جائے۔ اتفاق رائے سے بہتری آئے گی۔ دعا ہے مولانا فضل الرحمن اتفاق رائے کے مشن میں کامیاب ہوں۔ ہمارا مقصد آئین سازی غیر متازعہ طریقے سے کرنا ہے۔ ہم نے عوام کے مسائل کا حل نکالنا ہے۔ امید کرتا ہوں تمام سیاسی جماعتیں اپنی سیاست کیلئے نہیں ملک کے مفاد کیلئے اتفاق رائے کریں گی۔بلاول نے کہا کہ جے یو آئی کے ساتھ ہماری ورکنگ ریلیشن شپ مزید بہتر ہو گی۔ امید کرتا ہوں فضل الرحمن کے ساتھ ویسے ہی کام کروں گا جیسے ماضی میں کرتے آئے تھے۔ آج نواز شریف کے ساتھ بیٹھ کر اتفاق رائے پیدا کریں گے۔ نواز شریف سے اتفاق رائے ہو جائے پھر میڈیا سے شیئر کریں گے۔ چارٹر آف ڈیموکریسی پر عملدرآمد کیلئے پرعزم ہوں۔ ہم سب کا مقصد اور فوکس کسی مخصوص شخص کیلئے نہیں اور نہ ٹائمنگ کا ہے۔ پارلیمنٹ سے منظور مسودہ ہمارا ہی ہوگا۔ مجھے کوئی جلدی نہیں، 2006ء سے انتظار کر رہا ہوں۔ پی پی اور جے یو آئی میں جو اتفاق رائے ہوا کوشش ہوگی اس میں (ن) لیگ بھی شامل ہو جائے۔ تاریخ میں پہلی بار ہم جوڈیشل ریفارمز کرنے جا رہے ہیں۔ ہم نے غیر متنازع آئینی ترمیم کرنی ہے۔ آج کے اتفاق رائے سے سمجھا جائے کہ فضل الرحمن اور پی پی ایک پیج پر ہیں۔ ہم نے پارلیمانی کمیٹی بنائی جس میں سب کو برابری کی نمائندگی دی گئی۔ پی ٹی آئی ہم سے بات کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتی۔ پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے بات ہو سکتی ہے۔ فضل الرحمن پی ٹی آئی سے ان پٹ لے سکتے ہیں تو ہم اس کو خوش آمدید کہیں گے۔ پی ٹی آئی کے ساتھ اس وقت تجربہ کچھ مختلف ہوا۔ پی ٹی آئی مثبت سیاست کی بجائے رکاوٹ بنتی ہے۔ ایک بار ہم نے جوڈیشل ریفارمز کے حوالے سے وکلاء کی بات سنی اور ابھی تک بھگت رہے ہیں۔ ہمارے بڑوں نے غلطی کی اور 19 ویں ترمیم پاس کرائی۔ چاہوں گا کہ ایسی غلطی دوبارہ نہ ہو۔ ہم نے اپنے نمائندے تمام سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی کے پاس بھیجے تاکہ متفق ہو سکیں۔ فضل الرحمن نے کہا کہ ہم نے پہلے مسودے کو پہلے ہی مسترد کر دیا تھا۔ آج بھی وہ قابل قبول نہیں۔ ان کو ہماری سوچ کا اندازہ تھا۔ ن لیگ سے توقع کریں گے کہ ہم نے آئین کو مضبوط رکھنا ہے۔ سیاسی نظام پر اعتماد پیدا کرنا ہے۔ ہمیں سنجیدگی کے ساتھ سوچنا ہوگا۔ اگر ملک، آئین اور پارلیمنٹ ہے تو اس کیلئے ہم نے آواز بلند کرنی ہے۔ ہم نے اپنی تجاویز مرتب کی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں جن تجاویز پر ہم بات کر رہے ہیں وہ ان سے مخفی نہیں۔ صحافی نے فضل الرحمن سے سوال کیا کہ آئینی عدالت پر اتفاق ہوا یا آئینی بنچ پر اتفاق ہوا ہے؟۔ فضل الرحمن نے کہا کہ بیٹا! ہم نے بال دھوپ میں سفید نہیں کئے، آپ نے وہی سوال کیا جو پہلے ہو چکا ہے۔ آئینی ترمیم کے مسودے کو پہلے بھی مسترد کیا اب بھی مسترد کرتے ہیں۔ ہم نے ملکر اپنام مسودہ تیار کیا ہے۔ ہم نے جو تجاویز دی ہیں اس پر اتفاق ہوگا تو سو بسم اللہ۔ ایک سوال پر کہا کہ تحریک انصاف کے ساتھ مسلسل رابطہ ہے۔ انشاء اللہ پورے ایوان کا اتفاق حاصل کر لیں گے۔ آج اگر ہم لوگوں نے کسی چیز پر اتفاق کیا ہے تو یہ سیاست میں معمول کا حصہ ہے۔ تمام پارٹیوں نے ملکر ہی آئین بنایا تھا۔ جے یو آئی نے میثاق جمہوریت پر دستخط نہیں کئے۔ 18 ویں ترمیم ہی ہم سب نے ملکر بنائی تھی۔ آئین کو تحفظ دینا تمام محب وطن جماعتوں کی ذمے داری ہے۔ میثاق جمہوریت آئین کا متبادل ہے نہ کسی سیاسی پارٹی کے منشور کا متبادل ہے۔ میثاق جمہوریت سیاسی جماعتوں کے درمیان اخلاقی معاہدہ ہے۔