کاش کوئی ملک کے بارے میں سوچے

 کچھ روز ہوئے میں اپنی بیٹی کے ساتھ اس کی سہیلی سائرہ کے گھر تعزیت کے لیے گئی۔ سائرہ کا والد ملازمین کے ساتھ مری میں اپنے گھر گیا اور اپنی اہلیہ کو کہہ گیا کہ تم دو دن کے بعد آجانا تب تک میں گھر کی صفائی وغیرہ کروا لوں گا اور ضروری راشن بھی منگوا لوں گا۔ تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں تم آرام سے آؤ۔
وہاں جا کر دو دن خیریت سے گزرے سارا گھر ملازموں نے چمکا دیا اور ضروری راشن بھی منگوا لیا۔ دوپہر کے کھانے کے بعد وہ باتھ روم میں فریش ہونے کے لیے گئے تو ملازم نے دیکھا کہ ایک گھنٹہ ہوگیا ہے باہر نہیں آئے تو دروازہ کسی نہ کسی طرح سے کھولا اور و ہ فرش پر گرے ہوئے تھے اور اس جہان فانی سے کوچ کرچکے تھے۔ اس وقت ملازمین نے بہت کوشش کی کہ کوئی ہسپتال میں لے جایا جائے مگر سارے مری میں کوئی اچھا ہسپتال نہیں تھا جہاں اچھی طرح سے تشخیص ہو سکے۔ لاہور گھر والوں کو اطلاع دی اور ساری صورتحال بتائی تو ان کے ہوش اڑ گئے۔ ملازمین نے ایمبولنس کا بندوبست کرنے کے لیے سارا شہر چھان مارا مگر سب نے کہا کہ اسلام آباد کے ہسپتال میں ایمبولنس ملے گی۔ نوکر پریشان حال ہسپتال رجوع کرتے رہے۔ مگر رات تک کسی ایمبولنس کا بندوبست نہ ہو سکا۔ ان کا داماد ڈاکٹر تھا۔ اس نے بھی بہت رسائی کی مگر رات کو کہیں جا کر ایمبولنس کا بندوبست ہوا۔ گھر والے پریشان تھے اور سوچ رہے تھے ان کو ہارٹ کا مسئلہ ہی نہیں تھا۔ بالکل تندرست تھے لیکن نہایت ہی خواری اور سفارشوں کے ساتھ اسلام آباد سے ایمبولنس کا بندوبست ہوا اور آدھی رات کو وہ لاہور پہنچے۔ غسل خانہ میں جانے سے پہلے ان کا کھانا اور سوپ ملازمین نے میز پر لگایا ہوا تھا.  میں یہ کہوں گی۔
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں 
گھر والوں کو اچانک دکھ ملا۔ بیوی اور بچوں کا رو رو کر برا حال تھا۔ لیکن اتنے افسوس کی بات ہے۔ بقول ان کے کہ اس ہل سپوٹ پر کوئی اچھے ہسپتال کا بندوبست نہیں ہے اور صاحب اقتدار کے رہنے کے لیے محفل نما بنگلے کھڑے ہیں۔ مجھے یاد آگیا بہت سال پہلے گورنر ہاؤس ایک تقریب میں جانے کا اتفاق ہوا۔ اس قدر خوبصورت بلڈنگ تھی۔ اس عمارت کی تمام چیزیں باہر کے ملکوں سے لائی گئی تھیں۔ غرض کہ گارڈن میں طرح طرح کے پھول باہر سے لائی ہوئی سینٹری تک غسل خانوں میں نظر آرہی تھی اور دروازوں کے لاک چھوٹی چھوٹی سی اور بڑی سے بڑی اشیاء سے اس عمارت کو چمکایا ہوا تھا۔ وہاں جو بھی آتا رہنے کے لیے تو بڑے ٹھاٹ بھاٹ سے رہتا لیکن غریب غرباء کے لیے اس شہر میں کوئی سہولت مہیا نہیں تھی۔
روٹی تو ایک طرف کوئی بھی بڑا ہسپتال نہیں تھا جہاں ضرورت کی ساری چیزیں مہیا ہوں اور مریض اپنی پوری تشخیص کروا سکے اور ہسپتال میں ایمبولنس کی سہولت بھی مہیا ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ بہت سے لوگوں کے پاس سواری کی سہولت موجود نہیں ہوتی۔ اگر کوئی بیمار پڑ جائے تو چھوٹی سی ڈسپنسری میں درد کی دو گولیاں دے کر رخصت کیا جاتا ہے کہ اس سے آرام آجائے گا۔ اگر کسی موذی مرض میں مبتلا ہو جائے تو علاج معالجہ نہ ہونے کی صورت میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتے۔ ان بیچاروں کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ شہر جاکر ہسپتال میں علاج کروا سکیں.  لوگ بھوکے مر رہے ہیں۔ وسائل نہ ہونے کی وجہ سے مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ ہمارے حکمران چین کی نیند سو رہے ہیں۔ انھیں خبر نہیں ہے کہ مری میں ہسپتال نہ ہونے کی وجہ غریبوں کی اپنی بیماریوں کی وجہ سے جینا حرام ہوا ہے۔
ہماری حکومت کو چاہیے کہ جن شہروں میں ہسپتال نہیں ہیں وہاں ہسپتال تعمیر کروائیں اور اس ہسپتال میں ضرورت کی ہر مشین مہیا ہو تاکہ وہ شہروں میں جانے کی بجائے اپنے شہر میں ہی علاج کروا سکیں۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ مری ایسا شہر ہے جہاں ہر غریب امیر کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ وہاں جائیں وہاں کی فضا سے لطف اندور ہوں مگر غریبوں کی بیماری کی حالت میں وسائل نہیں ہوتے اور امراء  اپنے ذاتی جہاز میں پاؤں رکھتے ہی بڑے شہر میں پہنچ جاتے ہیں اور اپنا فوری طور پر علاج کرواتے ہیں۔ انہیں اس وقت خیال ہونا چاہیے کہ ایک غریب بھی جیتا جاگتا انسان ہے مگر بے سود۔ کاش ان لوگوں میں شعور پیدا ہو جائے۔ قدم قدم پر اللہ کے عذاب سے ڈریں۔ ملک و قوم کی جتنی بھی خدمت ہو سکے کریں اور اللہ کے عذاب سے ڈریں۔ 
اللہ نے رائی رائی کا حساب لینا ہے۔ یہ سب ان کی غفلت کا نتیجہ ہے۔ اگر حکومت چاہیے تو اپنے عیش و آرام کے ساتھ ساتھ دوسرے انسانوں کی ضرورت کا خیال بھی کریں۔ ان کے دکھ سکھ بانٹیں۔ اگلے جہان صرف عمال کام آئیں گے۔ کاش کوئی ایسا فرشتہ نفس شخص آئے جو صرف اور صرف اس ملک اور قوم کے لیے سوچے اور ملک میں آسودگی پیدا ہو جائے اور ہمارا ملک امن کا گہوارہ بن جائے۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن

تفہیم مکالمہ... ڈاکٹر جمیل اختر

jamillahori@gmail.com اساتذہ اور علماءکو انبیاءکا وارث قرار دیا گیا ہے، اور یہ محض ایک استعارہ نہیں، بلکہ اس بات کی علامت ہے کہ یہ افراد ...