شنگھائی تعاون تنظیم کے اسلام آباد میں منعقدہ اجلاس کیموقع پر تحریک انصاف کی جانب سے احتجاج کے اعلان پر حکومتی توپوں کی گھن گرج سے ایسے معلوم ہو رہا تھا کہ شاید پاکستان اگلے چند لمحوں میں میدان جنگ بننے جا رہا ہے۔ دونوں جانب سے بیانات کے سمندر بہہ رہے تھے۔ پنجاب سے حماد اظہر کہہ رہے تھے اگر عمران خان تک رسائی نہ دی گئی اور ڈاکٹروں کو چیک اپ کے لیے نہ بھجوایا گیا تو وہ خود پنجاب سے قیادت کرتے ہوئے احتجاج کے لیے اسلام آباد آئیں گے لیکن اس کی نوبت ہی نہیں آئی اور رتی برابر دانشمندی سے معاملہ ٹل چکا ہے۔ دونوں فریقین نفسیاتی جنگ لڑ رہے تھے۔ ہم کو تو پتہ تھا کہ کیا ہونے جا رہا ہے لیکن پاکستان کا عام شہری سولی پر لٹکا ہوا تھا۔ دونوں فریقین ایک دوسرے کے اعصاب کا امتحان لے رہے تھے اور ایک دوسرے کو دباؤ میں لانے کی کوشش کر رہے تھے حالانکہ یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں تھا جس پر ہم نے کئی دن ضائع کر دیے۔ ریاست کی توانائیاں صرف کر چھوڑیں۔ یہی دو فقرے اگر پہلے کہہ دیے جاتے تو معاملہ یہاں تک پہنچتا ہی نہیں۔ لیکن ہم نے تماشا لگا کر عوام کو ذہنی طور پر الجھاؤ میں رکھنا ہوتا ہے اور خودکومحظوظ کرنا مقصود ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں ان لڑائیوں سے یہ بھی ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے کہ دیکھو ہم کتنا کام کر رہے ہیں۔ بندہ پوچھے کہ یہی عمران خان تھا جس سے روز ملاقاتیں ہوتی تھیں پھر اچانک شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر ہی ان کو قید تنہائی میں رکھنے کا فیصلہ کس ارسطو کا تھا۔ دراصل حکومت 4اکتوبر کو ہونیوالے احتجاج سے ناراض تھی اور تحریک انصاف پر مزید سختیاں کرکے انھیں نفسیاتی طور پر الجھانا چاہ رہی تھی۔ دوسری جانب تحریک انصاف والوں کو تشویش ہو رہی تھی کہ 3اکتوبر کے بعد بانی پی ٹی آئی سے ان کا کوئی رابطہ نہ تھا بانی پی ٹی آئی کی بہنیں بھی جیل میں تھیں بانی پی ٹی آئی کا کچھ اتہ پتہ نہ تھا کہ وہ کس حال میں ہیں ان کے ساتھ کیا بیت رہی ہے اس دوران سوشل میڈیا پر طرح طرح کی خبریں پھیلائی جا رہی تھیں جس پر تحریک انصاف کے اچھے بھلے سمجھدار لیڈر بھی پریشان دکھائی دے رہے تھے۔ کئی ایک لوگوں نے تو ہم سے رابطہ کرکے پوچھا کہ بانی پی ٹی آئی جیل میں ہی ہیں اور ٹھیک ہیں؟۔ ہم نے انھیں بتایا کہ یہ سب افواہیں ہیں کوئی ایسا مسئلہ نہیں۔ یہ تو اللہ کا شکر ہے کہ حکومت نے عقلمندی کا ثبوت دیا کہ تحریک انصاف کی چھوٹی سی آشا قبول کرتے ہوئے بانی پی ٹی آئی تک رسائی دے دی ورنہ اگر اس ابہام میں لوگ احتجاج پر اتر آتے تو اس میں جذبات نمایاں ہونے تھے اور کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ شکر ہے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع کی حساسیت کو دونوں فریقین نے محسوس کیا اور ہوشمندی کا مظاہرہ کیا۔ قبل ازیں پشاور میں وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کے دائیں جانب وزیر داخلہ اور بائیں جانب بیٹھے گورنر خیبرپختونخوا کی تصویر نے خوشگوار حیرت کا تاثر دیا۔ لوگ ایسے ہی مل جل کر معاملات کو چلانے کے خواہاں ہیں لیکن شاید ہمارے سیاستدانوں کو اس کی عادت نہیں اور وہ صرف اور صرف مخالفانہ بیان بازی کو ہی سیاست سمجھتے ہیں حالانکہ سیاست تو خدمت کا نام ہے جو ہمارے قریب سے بھی نہیں گزری۔ ہم اپنا زیادہ تر وقت مخالفین کے خلاف سازشیں کرنے، انھیں کیسز میں پھنسانے، ان کا ناطقہ بند کرنے اور اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ با اختیار بنانے کی منصوبہ بندی پر ضائع کر چھوڑتے ہیں۔ اس کا اگر عشر عشیر بھی عوام کی فلاح اور انھیں سہولتیں دینے کے لیے وقف کر دیں تو کروڑوں لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ بہر حال ابھی ہمیں غیر ملکی مہمانوں کو دیکھنا ہے اور پھر اس کامیابی کی تشہیر کرنی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ عارضی جنگ بندی ہے دونوں فریقین نے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے لیے اچھے بچے بننے کا اعادہ کیا ہے۔ جونہی یہ کانفرنس اختتام پذیر ہو گی یہ ساریچاقو چھریاں لے کر پھر میدان میں کھڑے ہوں گے بلکہ اب تو لڑائی کے نت نئے طریقے آزمانے کی پلاننگ کی جا رہی ہے۔ آئینی ترمیمی بل کا ڈول تیار ہے اس پر مورچہ بند لڑائی کی تیاریاں ہیں اپنے اپنے چوزے ڈربوں میں بند کیے جا رہے وکلاء علیحدگی سے تیاریاں پکڑ رہے ہیں۔ اللہ کرے کوئی درمیانی راستہ نکل آئے جس کا امکان کم ہی ہے کیونکہ حکومت نے اسے اپنی زندگی موت کا مسئلہ بنا لیا ہے جبکہ اپوزیشن سمجھتی ہے کہ اگر آئینی ترامیم ہو گئیں تو حکومت عدلیہ کے ذریعے ان کی قبر کھود دے گی عوام صرف یہ سوال پوچھتے ہیں کہ اس میں وہ کہاں کھڑے ہیں۔ اگر آئین میں ترامیم اتفاق رائے سے نہ ہوئیں تو ایک نئی جنگ کا آغاز ہو جائے گا اس حوالے سے اس سال کے آخری دو اڑھائی ماہ بہت اہم ہیں جس میں حکومت بالادستی بھی حاصل کر سکتی ہے اور سرنڈر بھی کر سکتی ہے۔ آنے والے دن فیصلہ کن ثابت ہو سکتے ہیں عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیاں بھی اثرانداز ہو سکتی ہیں۔