آئینی عدالت‘ اقتداری بھائیوالوں کے چونچلے

یہ بات تو اب طے شدہ ہی نظر آرہی ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم صرف منظور ہی نہیں ہوگی بلکہ حکومت اور اپوزیشن بشمول پی ٹی آئی کے باہمی اتفاق رائے سے منظور ہو گی اور پارلیمنٹ میں اسکی منظوری شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے اختتام کے اگلے یا اس سے اگلیروز  ہو جائیگی۔ گویا ’’ٹائیں ٹائیں فش‘‘ اور ’’کفر ٹوٹا خداخدا کرکے۔‘‘
جناب میرے اس یقین کامل کی بنیاد مولانا فضل الرحمان کا آج شائع ہونے والا وہ بیان ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ آئینی ترامیم پر کافی حد تک ہم آہنگی ہو چکی ہے۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے تو اس سے بھی لمبی چھلانگ لگاتے ہوئے یہ کہہ دیا کہ آئینی عدالت کی تشکیل پر سیاسی جماعوں میں مکمل اتفاق ہے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ پیچھے ہٹ جائو‘ میں انہیں کہتا ہوں کہ تم ہٹ جائو۔ پی ٹی آئی کی جانب سے آئینی ترمیمی مسودے پر غور کیلئے اگرچہ مزید وقت کا تقاضا کیا جا رہا ہے تاہم اسکے قائدین کے لب و لہجے سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ انکے تقاضے اور تحفظات باسی کڑھی میں ابال تک ہی محدود رہیں گے اور سب کھایا پیا ہضم ہو جائیگا۔ 
تو صاحبو! نوید یہ ہے کہ آئینی عدالت کی تشکیل پر سب متفق ہو چکے ہیں اور آئینی ترمیمی بل کے دیگر نکات سے حکومت نے رجوع کرلیا ہے کیونکہ حکومت کی اصل ضرورت آئینی عدالت کا قیام ہی ہے جو سپریم کورٹ سے بالاتر ہوگی۔ پھر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس چاہے سید منصور علی شاہ ہی کیوں نہ ہوں‘ اس سے حکومت کو کیا فرق پڑتا ہے۔ حکومت کو چیلنج کرنے والے اور اس کیلئے پریشانی کا باعث بننے والے تمام آئینی مقدمات تو صرف آئینی عدالت ہی میں جائیں گے جبکہ روٹین کے دیگر تمام مقدمات کی سپریم کورٹ میں سماعت ہو گی۔ آئینی عدالت کے سربراہ قاضی فائز عیسیٰ ہونگے تو حکومت کیلئے انہیں چیف جسٹس سپریم کورٹ کے منصب پر برقرار رکھنے کی خاطر ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے کی مجوزہ آئینی ترمیم بھی بے معنی ہو کر رہ جائیگی۔ اسی طرح چیف جسٹس سپریم کورٹ کے تقرر کا مروجہ طریقہ کار تبدیل کرنے کی مجبوری بھی حکومت کو لاحق نہیں رہے گی اور اسے کوئی فرق نہیں پڑیگا کہ چیف جسٹس کیلئے سینئر پیونی جج کا تقرر ہی عمل میں آئے چاہے وہ جسٹس منصور علی شاہ ہی کیوں نہ ہوں۔ اس طرح آئینی عدالت کی تشکیل کی خاطر حکومت نے آئینی ترمیمی بل کی دوسری تمام شقوں پر اپوزیشن سے مفاہمت کرلی ہے اور وہ ان شقوں سے دستبردار ہو گئی ہے تو یہ اس کیلئے یقیناً گھاٹے کا سودا نہیں ہوگا۔ 
آئینی ترمیمی بل کی منظوری کیلئے مولانا فضل الرحمان کا اتفاق بھی بادی النظر میں حکومت کے ترمیمی بل کی دوسری شقوں سے رجوع کرنے کے باعث ہی ہوا ہے ورنہ تو وہ پائوں کی مٹی چھوڑنے پر آمادہ ہی نہیں تھے۔ اب آئینی ترمیم کیلئے حکومت کو مولانا فضل الرحمان کی حمایت حاصل ہو گئی ہے تو اس کیلئے پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے میں بھلا کون سا فاصلہ باقی رہ گیا ہے۔ اسکے بدلے میں مولانا فضل الرحمان کچھ حکومتی مناصب سے بھی فیض یاب ہو جائیں گے اور تحریک انصاف کیلئے آئینی عدالت کی تشکیل کے بعد سپریم کورٹ کا آٹھ رکنی اکثریتی فیصلہ بھی  پی ٹی آئی کے لئے زاد راہ نہیں بن پائے گا کیونکہ ترمیمی ایکٹ آف پارلیمنٹ اب صرف آئینی عدالت میں ہی چیلنج ہو پائے گا جسے عدالتی تحفظ حاصل ہو جائیگا تو اسی ایکٹ آف پارلیمنٹ کی بنیاد پر پی ٹی آئی کو خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں الاٹ ہی نہیں ہو پائیں گی۔ تو جناب! اگلے ہفتے سے حکومت کیلئے ’’ستے خیراں‘‘ ہیں۔ 
جناب یہ معاملات تو بلیم گیم والے ہمارے مروجہ سیاسی کلچر کے ہیں جس میں کسی بھی شخصیت اور ادارے کی عزت اور پگڑی محفوظ نہیں‘ افسوسناک صورتحال تو یہ پیدا ہوئی کہ اپنے اپنے ممدوحین کیلئے نفرت و عقیدت کی فضا نے ریاستی آئینی اداروں کو بھی اپنے شکنجے میں جکڑ لیا۔ پارلیمنٹ میں تو یقیناً حکومت اور اپوزیشن کی اپنی اپنی سیاست چلتی ہے جس کی وہ قانونی اور آئینی طور پر مجاز بھی ہوتی ہیں مگر کسی ریاستی ادارے بالخصوص اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ میں یہ کلچر در آئے تو انکے آنگنوں سے انصاف کا جنازہ تو ویسے ہی اٹھ جائیگا۔ مجھے اس حوالے سے زیادہ تفکر و تجسس عدلیہ کے بارے میں ہوتا ہے۔ اس ادارے نے زیادہ تر ماورائے آئین اقدامات والے فوجی اور سول آمروں کی ہی خدمت کی ہے۔ جسٹس منیر کے ایجاد کردہ نظریہ ضرورت کو اگرچہ مشرف کے دور میں ججز بحالی کیس میں جسٹس خلیل رمدے کی سربراہی میں سپریم کورٹ کی فل کورٹ نے احاطہ عدالت میں دفن کرنے کا اعلان کیا تھا مگر اسکے بعد جوڈیشل ایکٹوازم نے وہ گل کھلائے کہ خدا کی پناہ۔ چیف جسٹس ثاقب نثار سے جسٹس عمر عطاء￿ بندیال تک ان گناہ گار آنکھوں نے عدالتی فعالیت کے نام پر آئین کا تیا پانچہ ہونے تک کیا کچھ نہیں دیکھا۔ ایک سیاسی جماعت اور اسکے لیڈر کو اپنا ممدوح سمجھ کر اس کیلئے کیا کیا غل غپاڑہ نہیں کیا گیا۔ انصاف کا یہ تصور نہ کسی قانون و آئین کی کتاب میں موجود ہے نہ دنیا کے کسی کونے کھدرے میں دیکھا گیا۔ پھر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس کے منصب پر فائز ہونے کے بعد خالصتاً آئین کی پاسداری و عملداری کا عزم باندھا تو اسی سیاسی جماعت اور اسکے سوشل میڈیا سیل نے ان کا پھلکا اڑانے میں بھلا کوئی کسر چھوڑی؟
تو جناب! یہی وہ سیاسی کلچر ہے جو آئینی عدالت عظمیٰ کی تشکیل کی راہ ہموارکرنے کا باعث بنا ہے۔ بلاول بھٹو تو کہتے ہیں کہ آئینی عدالت کی تشکیل بانی پاکستان قائداعظم کا ادھورا خواب ہے جو ہم پورا کر رہے ہیں‘ انہوں نے اس بحث مباحثہ میں اے آر ڈی کے پلیٹ فارم پر ہونے والے میثاق جمہوریت کی یادبھی تازہ کی جس میں ایک شق آئینی عدالت کی تشکیل کی بھی تھی۔ اور اس اپوزیشن اتحاد سے نکلنے کے بعد میاں نوازشریف نے دوسرا اپوزیشن اتحاد اے پی ڈی ایم تشکیل دیا جس میں عمران خان نیازی  بھی شامل تھے تو آئینی عدالت کی تشکیل اسکے منشور کا بھی حصہ بنی۔ گویا تحریک انصاف اس اتحاد کا حصہ ہونے کے ناطے 2005ء سے ہی آئینی عدالت کی تشکیل کی طلب گار ہے۔ اب اس معاملہ میں اس پارٹی کا اختلاف رائے محض سیاسی پوائنٹ سکورنگ ہے اس لئے حکومت نے آئینی عدالت کی تشکیل کے سوا دوسری تمام مجوزہ آئینی ترامیم سے رجوع کرلیا ہے تو پی ٹی آئی کو سیاسی پوائنٹ سکورنگ میں بھی سبقت حاصل ہو گئی ہے چنانچہ آئینی عدالت کی تشکیل کے معاملہ میں اس کیلئے کوئی امر مانع نہیں رہا۔ پھر جناب! ’’ستے خیراں‘‘۔
لمحہ فکریہ تو ہماری عدل گستری کیلئے ہونا چاہیے کہ اسکی قیادتوں کی ’’آنیوں جانیوں‘‘ کے باعث ہی سپریم کورٹ میں سے آئینی عدالت نکالنے کی نوبت آئی ہے۔ ورنہ یہ سیاست دانوں کی ضرورت ہوتی تو 2008ء کی اسمبلی میں 18ویں آئینی ترمیم میں ہی آئینی عدالت کی تشکیل کی شق بھی شامل کرلی جاتی جو اس وقت حکومت اور اپوزیشن کے اتفاق رائے سے منظور ہوئی تھی۔ اس طرح میثاق جمہوریت کا تقاضا بھی پورا ہو جاتا۔ تو جناب! سیاست ادارہ جاتی سطح پر بھی در آئیگی تو پھر کسی نہ کسی کو کچھ نہ کچھ خمیازہ تو بھگتنا ہی پڑیگا۔ پھر بھگتیں جناب۔ 
مجھے آئینی عدالت کی تشکیل اس لئے بھی سود مند نظر آتی ہے کہ سپریم کورٹ میں جتنا وقت آئینی مقدمات میں ضائع ہوتا ہے‘ وہ وقت اب عام سائلین کے مقدمات کی سماعت کیلئے بروئے کار لایا جا سکے گا۔ اس طرح شاید دادے کے دائر کردہ کیس کے اسکے پوتے کی وفات تک بھی فیصلے کی نوبت نہ آپانے کی ضرب المثل الٹ جائے اور عام آدمی بھی انصاف کو ترسنے کی بجائے انصاف سے بروقت فیض یاب ہونے لگے۔ آئینی مقدمات تو محض اقتداری بھائیوالوں کے چونچلے ہوتے ہیں۔ عام آدمی کو بھلا ان سے کیا سروکار ہو سکتا ہے جو آج بے انصاف معاشرے میں نانِ جویں کو ترستے قبرستانوں کی جانب بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ آئینی عدالت انکے اس کٹھن سفرکو تو کم از کم آسان بنا دیگی۔

ای پیپر دی نیشن