آئینی ترامیم اور بنیادی حقوق

انیس سو تہتر (1973) کے متفقہ آئین کی منظوری کے بعد اب تک 25 ترامیم ہو چکی ہیں جن میں چند ایک ہی ایسی ہوں گی جو عوام کے بنیادی حقوق کے لیے کی گئیں-پاکستان کا حکومتی اتحاد 26 ویں آئینی ترمیم کے لیے بڑا گرم جوش نظر آتا ہے-گزشتہ ماہ کی ایک رات کو زور زبردستی آئین میں ترمیم کرنے کی کوشش کی گئی جو ناکام ثابت ہوئی-عدالتی تاریخ میں پہلی بار اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں نے کھلا خط لکھ کر یہ دعوی کیا تھا کہ ان کے کاموں میں خفیہ ایجنسیاں مداخلت کر رہی ہیں-سپریم کورٹ کے فل بینچ کے آٹھ جج صاحبان نے خصوصی نشستوں کے سلسلے میں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی منشا کے خلاف فیصلہ صادر کر دیا- چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی کی ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس منصور علی شاہ سینیارٹی کی بنیاد پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بن جائیں گے-حکومت ان کے سلسلے میں اندیشہ ہائے دور و دراز میں مبتلا ہو چکی ہے اور چاہتی ہے کہ ان کے منصب سنبھالنے سے پہلے وہ ایسی آئینی ترامیم منظور کروا لے تاکہ ان کی حکومت کو کسی قسم کا کوئی خطرہ باقی نہ رہے- حکومتی اتحاد کی جانب سے مجوزہ ترامیم کے بارے میں جو تجاویز منظر عام پر آئی ہیں ان میں سب سے بڑی آئینی ترمیم وفاقی آئینی عدالت کے قیام کے سلسلے میں ہے- حکومت کی خواہش ہے کہ آئینی مقدمات کے لیے ایک وفاقی آئینی عدالت قائم کر دی جائے-اس وفاقی آئینی عدالت کا پہلا چیف جسٹس وزیراعظم پاکستان نامزد کریں گے جبکہ باقی ججز کی تعیناتی چیف جسٹس کی مشاورت سے کی جائے گی-اگر حکومت یہ ترمیم پارلیمنٹ سے منظور کروانے میں کامیاب ہو گئی تو وفاقی آئینی عدالت میں اس کے پسندیدہ جج بیٹھے ہوں گے جو حکومت کے خلاف ایسا فیصلہ نہیں دیں گے جس سے حکومت عدم استحکام کا شکار ہو جائے یا اس کا آئینی جواز ختم ہو جائے-حکومت کی مجوزہ ترامیم آئین کے آرٹیکل 8 جس کا تعلق بنیادی حقوق سے ہے- آرٹیکل 51 جس کا تعلق قومی اسمبلی کی ساخت کے بارے میں ہے- آرٹیکل 63 کا تعلق اراکین اسمبلی کی اہلیت کے سلسلے میں ہے- آرٹیکل 175 جو عدلیہ کے اختیارات کے سلسلے میں ہے - آرٹیکل 187 جو سپریم کورٹ کے پروسیجر کے بارے میں ہے-
حکومت ترمیم کر کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کو دوسرے صوبوں میں ٹرانسفر کرنے کا اختیار حاصل کرنا چاہتی ہے-اگر یہ ترمیم منظور کر لی گئی تو عدلیہ کی آزادی متاثر ہو سکتی ہے-اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کے سروں پر یہ تلوار لٹکتی رہے گی کہ وہ دوسرے صوبوں میں ٹرانسفر کیے جا سکتے ہیں- حکومت ججوں کی عمر 65 سال سے بڑھا کر 68 سال کرنا چاہتی ہے-حکومت کی تجویز یہ بھی ہے کہ سپریم کورٹ کا چیف جسٹس سینیارٹی کی بنیاد کی بجائے سینیئر ترین تین ججوں میں سے کسی کو تعینات کیا جائے جس کا اختیار حکومت کے پاس ہو-
حکومت کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم نے تجویز دی ہے کہ آئین میں بلدیاتی انتخابات اور مقامی حکومتوں کو اسی طرح تحفظ دیا جائے جس طرح قومی اسمبلی، وفاقی حکومت، صوبائی اسمبلی اور صوبائی حکومتوں کو حاصل ہے- اگر ایم کیو ایم اپنی اس تجویز پر ثابت قدم رہی تو پاکستان کے عوام کو ان کا مقامی حکومتوں کا حق مل سکتا ہے جو ہر لحاظ سے با اختیار ہوں گی اور عوام کے بنیادی مسائل ان کے گھر کی دہلیز پر حل ہو سکیں گے- حکمران اگر مخلص ہوں تو وہ عدلیہ کو نشانہ بنانے کی بجائے ریاست کی ریسٹرکچرنگ کرنے کی کوشش کریں جو پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے- صوبوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے چیف ایگزیکٹو کا انتخاب براہ راست عوام کے ووٹوں سے کیا جائے-
 انتخابات متناسب نمائندگی کے اصول پر کروائے جائیں تاکہ پڑھے لکھے عام افراد بھی پارلیمنٹ میں پہنچ سکیں - مولانا فضل الرحمان اور پی ٹی ائی کے لیڈران آئینی ترامیم کے سلسلے میں ایک پیج پر آ چکے ہیں اور کوئی بھی ایسی ترمیم منظور کرنے کے حامی نہیں ہیں جن سے عوام کے بنیادی حقوق پر زد پڑ سکتی ہو-پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری آئینی ترامیم کے سلسلے میں بڑے سرگرم اور فعال نظر آتے ہیں- انہوں نے سندھ ہائی کورٹ بار پنجاب ہائی کورٹ بار اور بلوچستان ہائی کورٹ بار سے بھی خطاب کیا ہے اور اپنا موقف وکلاء کے سامنے رکھا ہے-بلاول بھٹو زرداری ٹیلی فون پر میاں نواز شریف سے بھی رابطے میں ہیں تاکہ ان کو آئینی ترامیم کے سلسلے میں پیش رفت سے آگاہ رکھا جائے-پاکستان تحریک انصاف وفاقی آئینی کورٹ کے سخت خلاف ہے-اس کا موقف یہ ہے کہ صرف 200 آئینی مقدمات کے لیے وفاقی آئینی عدالت قائم نہیں کی جانی چاہیے بلکہ سپریم کورٹ کے اندر ہی ایک آئینی بینچ تشکیل دے دیا جائے جو صرف آئینی مقدمات کی سماعت کرے-جمعیت العلمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اس سلسلے میں تحریک انصاف کے حامی نظر آتے ہیں-ایک تجویز یہ بھی ہے کہ ججوں کی تعیناتی جج نہ کریں بلکہ قومی اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی کو یہ اختیار دے دیا جائے-پاکستان کی عدالتی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی بھی ادارے میں سیاسی مداخلت ہوئی تو اس ادارے کا معیار زوال پذیر ہو گیا کیونکہ سیاسی پسند ناپسند کی بنیاد پر جو بھی نامزدگی کی جائے گی وہ میرٹ کی کھلی خلاف ورزی ہوگی-اس لیے مناسب یہ ہے کہ برطانیہ کی طرح ایک جوڈیشل اپوائنٹمنٹ کمیشن تشکیل دیا جائے جو میرٹ اہلیت اور دیانت کی بنیاد پر ججوں کی نامزدگی کر سکے تاکہ سیاسی عمل دخل کو عدلیہ سے باہر نکالا جا سکے-پاکستان کے سینیئر نامور بیرسٹر حامد خان نے کہا ہے کہ موجودہ اسمبلی چونکہ متنازعہ اسمبلی ہے جس کے انتخابی آئینی جواز کا فیصلہ ابھی سپریم کورٹ نے کرنا ہے اس لیے اسمبلی کو یہ اختیار ہی نہیں ہے کہ وہ آئین میں ترمیم کر سکے-حکومت کو آئینی ترمیم منظور کرانے کے لیے 224 اراکین کی حمایت درکار ہے جبکہ اس کے پاس ابھی تک صرف 214 ممبر موجود ہیں-اگر موجودہ حکومت عوام کی ہمدرد اور دوست ہے تو اسے مقامی حکومتوں کے آئینی تحفظ کے علاوہ آئین کے ارٹیکل 38 کو بھی بحال کر دینا چاہیے جو گزشتہ 50 سال سے خود آئین ہی کی حراست میں ہے-
 آئین کا آرٹیکل 38 بنیادی حقوق کی روح ہے جو ہر بے روزگار کو بے روزگاری الاؤنس دینے کی یقین دہانی کراتا ہے-مگر افسوس اس آرٹیکل کو آرٹیکل نمبر 29 اور آرٹیکل نمبر 30 کے ذریعے قید کر دیا گیا ہے لہذا کوئی شخص بے روزگاری الاؤنس کے لیے عدالت کا دروازہ نہیں کھٹکھٹا سکتا کیونکہ عدالت آرٹیکل 38 کے بارے میں فیصلہ دینے کا اختیار ہی نہیں رکھتی-حکومت کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ عوام کو سہولت فراہم کرنے اور جوڈیشل ایکٹوازم کو روکنے کے لیے ترامیم لانے کی کوشش کر رہی ہے- جبکہ اس کے مخالفین یہ کہتے ہیں کہ حکمران عدلیہ کی آزادی کو سلب کرنے کے درپے ہو چکے ہیں- عوام کو سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا لوئر کورٹس میں کرنا پڑتا ہے مگر آج تک کسی حکومت نے لوئر کورٹس پر کوئی توجہ ہی نہیں دی- غیر جانبدار آئینی اور قانونی ماہرین کے مطابق حکومت کی مجوزہ ترامیم بنیادی حقوق کے منافی ہیں-
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن

تفہیم مکالمہ... ڈاکٹر جمیل اختر

jamillahori@gmail.com اساتذہ اور علماءکو انبیاءکا وارث قرار دیا گیا ہے، اور یہ محض ایک استعارہ نہیں، بلکہ اس بات کی علامت ہے کہ یہ افراد ...