معاشرہ یا قبرستان

صاحب علم لوگوں کی نظر میں جن معاشروں میں حق اور سچ کی بات نہ کی جائے اْنکی حثیت زندہ لاشوں کے قبرستان سے زیادہ کچھ نہیں ہوتی۔ فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہ بستی جس میں مردہ جسم دفنائے ہوتے ہیں اسے ہم قبرستان کہتے ہیں جبکہ اسکے برعکس زندہ لاشوں کے روپ میں اْن مردہ ضمیروں جن میں حق گوئی کی ہمت نہیں ہوتی انکے مسکن کی حثیت بھی بالکل اسی قبرستان جیسی ہوتی ہے جسے ہم شہر خموشاں کہتے ہیں۔ اہل دانش طبقہ کے بقول زندہ معاشروں میں عدل کے بعد جو چیز سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے وہ شعبہ صحافت ہے کیونکہ مسجد کے بعد اگر کہیں سے اذان کی آواز سنائی دیتی ہے تو وہ یہی خانقاہ ہوتی ہے لیکن افسوس صد افسوس آج کے دور میں یہ خانقاہیں بھی کچھ بے نور سی نظر اتی ہیں لیکن یہ بھی اللہ کی ایک نعمت ہوتی ہے کہ جنھوں نے ان خانقاہوں کو آباد رکھنا ہوتا ہے وہ اس میں کوئی نہ کوئی دیا جلائے رکھتے ہیں۔ راقم بھی اپنے اس ادارے کو ایک خانقاہ درجہ دیے رکھتا ہے جس میں سب سے پہلے حق گوئی کا دیا مرشد مجید نظامی روشن کیا اور کوشش ہوتی ہے کہ زمانے کے جبر کے باوجود اْن حقائق سے پردہ ضرور اْٹھایا جائے جو وطن عزیز کی سلامتی سے جْڑے ہوں۔
وطن کی سلامتی کے حوالے سے اس وقت کے معروضی حالات چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ 2008ء سے جاری دس بارہ سال کی طویل جدوجہد کے بعد ایک ایسا دور جب یہ اْمید ہو چلی تھی کہ اپنی ناقص سوچ اور منصوبہ بندی کے عوض پرائی جنگ کا وہ پھندا جو 1979ء میں ہم نے جہاد اور شہادت کے نام پر بے مول اپنے گلے کی زینت بنایا اور جسکی تباہ کاریاں افغانستان سے زیادہ ہمارا مقدر بنیں اس سے اب ہم کسی حد تک چھٹکارہ پا چکے لیکن وہ کیا وجوہات ہیں کہ دیکھتے ہی دیکھتے پچھلے ایک ڈیڑھ سال سے جہنم کی اس آگ نے ایک دفعہ پھر ہمارے ہی وطن کو اپنا مسکن بنا لیا ہے۔ تجزیہ کاروں کیلئے اسکا جواب ڈھونڈنا مشکل نہیں، مشکل اگر ہے تو وہ یہ ہے کہ نہ سیاسی اشرافیہ اور نہ ہی اہل فکر جنکو ہم تھنک ٹینک کہتے ہیں اس فکر میں ہیں کہ ان حالات کی سنگینی کی طرف ہم کوئی توجہ دیں اور اسکے لئے ہم کوئی مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دیں۔
قارئین کی یاد دہانی کیلیئے راقم 2008ء کی تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی کرتا ہے۔ ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی اس وقت کے کئی اہم کمانڈرز کی رائے کے برعکس ذاتی خواہش پر جب نائن الیون کی گھناؤنی سازش میں جب ہم افغانستان کی پراکسی وار کا حصہ بنے تو ایک وقت ایسا بھی آیا جب اس ملک کی افواج جنکے عوام دل و جان سے گیت گاتے تھے ان کیلئے بھی پبلک مقامات پر جانے کیلیئے خصوصی ہدایات جاری کی گئیں لیکن پھر تاریخ نے وہ وقت بھی دیکھا کہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی فوج کی قیادت سنبھالتے ہی حالات نے کیسے کروٹ لی اور پھر ایک ایسا وقت بھی آیا کہ سوات میں جب فتنہ الخوارج اپنے عروج پر تھا اور وہاں عملاً ریاست کی رٹ ختم ہو چکی تھی اس فوج نے جنرل کیانی کی قیادت میں صرف تین ماہ کے قلیل عرصہ میں پورے علاقہ سے پہلے سول آبادی کی منتقلی کر کے خوارج کی بیخ کنی کی بلکہ تین ماہ کے بعد نقل مکانی کرنے والی مقامی آبادی کو دوبارہ اپنے گھروں میں آباد بھی کیا لیکن یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیئے کہ اس سارے عمل میں اس وقت کی پیپلز پارٹی کی سول حکومت نے اپنی افواج کی ہر ضرورت پر لبیک کہا بلکہ یہ بات انکے کریڈٹ میں جاتی ہے کہ انھوں نے ملک کی ساری سیاسی اشرافیہ کو بھی اس عمل میں انگیج کیا۔ انہی ایام کا تاریخ کا اگلہ صفحہ کھولیں تو پتا چلتا ہے کہ اسکے بعد جنرل کیانی اور دوسری فوجی قیادت پر امریکہ مسلسل یہ دباؤ ڈالتا رہا کہ سوات کی طرز کا شمالی وزیرستان میں بھی آپریشن کیا جائے لیکن اس وقت کی فوجی قیادت نے نہ صرف اس دباؤ کو قبول کرنے سے انکار کیا بلکہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ پاکستان کے راستے امریکہ کو جو لاجسٹک سپورٹ کی جو سہولت میسر تھی اسے بھی کچھ عرصہ تعطل کی شکل دیکھنی پڑی۔ اس سارے عمل میں دیکھنے کی جو بات ہے وہ یہ اہم نقطہ ہے کہ اس ساری جدوجہد میں کس طرح ملک کی ساری سیاسی اشرافیہ اور فوج ایک موقف ایک پیج پر تھے لیکن دیکھنے والی بات یہ ہے کہ آج جب وہی فتنہ الخوارج اپنی اسی شدت کے ساتھ دوبارہ ہمارا منہ چڑا رہا ہے تو آج ہم اندرونی محاذ پر کس مقام پر کھڑے ہیں۔ آج جب افواج پاکستان کی طرف سے ‘‘ عزم استحکام’’ نام پر کسی مہم کا ارادہ سامنے اتا ہے تو اس پر ہماری سیاسی اشرافیہ کا کیسا رویہ سامنے اتا ہے۔ نقاد دوست اس سباق سوات آپریشن کے بعد شمالی وزیرستان میں ہونے والے اپریشنز کا حوالہ دیتے ہیں کہ کس طرح اپنے علاقوں سے نقل مکانی کرنے والوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور آج بھی انکا یہ عْذر کہ وہ متاثرین جو اپنے گھروں سے غیرآباد ہوئے وہ آج بھی اپنے گھروں میں دوبارہ بس نہیں سکے تو اس مہم عزم استحکام کو کیسے سپورٹ کیا جائے تو اْن دوستوں کیلیئے ایک بڑا سادہ سا جواب ہے کہ اگر سب کام فوج نے ہی کرنا ہے تو پھر سیاسی اشرافیہ کا وجود کس بات کیلیئے ہے اور اگر انکی آباد کاری نہیں ہوئی تو اسکا ذمہ دار کون۔ بات عْذر در عْذر کی نہیں ضرورت تو یہ ہے کہ تمام سیاسی اشرافیہ گرینڈ جرگہ کے نام پر ان متاثرین کے ساتھ بیٹھے اور اْنھے سمجھائے کہ جب تک آپ اس فتنہ الخوارج سے نجات حاصل نہیں کرینگے نہ آپ سکون سے بیٹھ سکیں گے نہ باقی پاکستان کے لوگ۔ آپ نے چند دن پہلے دیکھ لیا ایک مقامی تنظیم جو اس ایشو پر سیاست کرنا چاہتی تھی اسے جب پورے ملک کی سیاسی اشرافیہ نے جرگہ کی صورت میں انگیج کیا تو دشمنوں کے عزائم خاک میں مل گئے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جلسہ جلسہ دھرنا دھرنا کی سیاست سے نکل کر پہلے ملک کی سلامتی کی طرف توجہ دیں۔ ملک رہے گا تو سیاست بھی ہو گی ورنہ پھر قبرستان تو ہے ہی۔
٭…٭…٭

طارق امین۔۔۔۔ تیسری آنکھ`

ای پیپر دی نیشن

تفہیم مکالمہ... ڈاکٹر جمیل اختر

jamillahori@gmail.com اساتذہ اور علماءکو انبیاءکا وارث قرار دیا گیا ہے، اور یہ محض ایک استعارہ نہیں، بلکہ اس بات کی علامت ہے کہ یہ افراد ...