بدھ ‘12 ربیع الثانی 1446ھ ‘ 16 اکتوبر 2024ء

Oct 16, 2024

چشم بددور‘ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس پر اسلام آباد کو دلہن کی طرح سجا دیا گیا۔
اس وقت خدا نظر بد سے بچائے ہمارا دارالحکومت حقیقت میں دلہن کی طرح سجا ہوا ہے۔ یوں لگتا ہے رنگ و نور اور خوشبوئوں نے سارے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ یہ ساری تیاریاں کئی دنوں سے جاری تھیں‘ کیونکہ شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس اس شہر بے مثال میں منعقد ہو رہا ہے۔ دنیا بھر سے اس فورم کے رکن ممالک سے اعلیٰ سطحی وفود اور چین کے وزیراعظم بھی یہاں قدم رنجہ فرمائیں گے۔ پاکستانی ہمیشہ اپنے دوستوں اور مہمانوں کیلئے دیدہ و دل فرش راہ کرتے ہیں۔ سو اب بھی انکی مہمان نوازی سب کو متاثر کریگی۔ کم و بیش دو ہزار سے زیادہ مہمانان گرامی کی خاطر مدارت کرنا بڑا اعزاز ہے۔ موجودہ سیاسی انتشاری صورتحال اور تخریب کاروں کی وجہ سے کچھ سخت حفاظتی انتظامات سے دو تین روز اسلام آباد والوں کو پریشانی ہوگی مگر مہمانوں کی حفاظت کیلئے وہ ہنسی خوشی برداشت کر لیں گے۔ اب ہماری سیاسی جماعتوں کو بھی معتدل رویہ اپنانا چاہیے۔ جب مہمان گھر آئے ہوں تو گھر والے انکے سامنے پوتڑے نہیں دھوتے ‘گند نہیں پھیلاتے اس سیسے دور رہتے ہیں۔ لڑائی جھگڑے سے پرہیز کرتے ہیں تاکہ ان پر برااثر نہ پڑے۔ اس لئے فی الحال اسلام آباد کو ایسی سرگرمیوں سے محفوظ ہی رکھا جائے تو بہتر ہوگا۔ کم از کم ہم جگ ہنسائی سے تو بچ جائیں گے۔ ورنہ پہلے کون سا ہمارا اچھا کام ایسا ہے جس پر کوئی ہماری تعریف کرے۔ چلو مہمان نوازی کی تو تعریف ہو جائیگی۔ یوں بھی دل موہ لینے پر تو رات کو روشنیوں کی سجاوٹ دل کا قرار بن جاتی ہے۔ کسی پرستان کا شہر لگتا ہے۔ جہاں قدرت کی فیاضی اور انسانی مہارت نے کمال کر دیا ہے اور سب کے دل سے یہی دعا نکلتی ہے۔ 
سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے
تیرا ہر اک ذرا ہم کو اپنی جان سے پیارا
تیرے دم سے شان ہماری تجھ سے نام ہمارا
جب تک ہے یہ دنیا باقی ہم دیکھیں آباد تجھے
سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے
٭…٭…٭
اچھا ہوتا مودی خود اجلاس میں شرکت کیلئے آتے‘ نوازشریف۔
بھارتی صحافی برکھادت جو آج کل پاکستان آئی ہوئی ہیں اور شنگھائی کانفرنس کی کوریج کر رہی ہیں‘ ہمارے سابق وزیراعظم میاں نواشریف نے بھی گزشتہ روز ان سے ملاقات کی جس میں انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اچھا ہوتا اگر بھارتی وزیراعظم مودی خود اس کانفرنس میں شرکت کیلئے آتے۔ یہ وہی غالب والی بات ہے۔
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
اگرچہ بھارت کے وزیر خارجہ اس اجلاس میں شرکت کررہے ہیں مگر ان میں بات کہاں مولوی مدن جیسی‘ اٹل بہاری واجپائی کے بعد مودی بھی اگر پاکستان آتے تو اچھا ہوتا۔ ویسے بھی ملنے ملانے سے بہت سی راہیں کھلتی ہیں۔ ہمارے میاں جی تو ویسے بھی بھارت سے اچھے تعلقات کے حق میں ہیں۔ دونوں ممالک کے عوام بھی پرامن بقائے باہمی کے تحت اچھے ہمسائیوں کی طرح رہنا چاہتے ہیں جو ایک اچھی خواہش ہے۔ کاش ایسا ہو مگر جب سے بھارت میں بھارتی جنتا پارٹی کی حکومت آئی ہے‘ اس نے پاکستان دشمنی کو اپنا وطیرہ بنا لیا ہے۔ ایک تو کریلا اور وہ بھی نیم چڑھا۔ بی جے پی کے لیڈر بھارتی وزیراعظم مودی نے تو اسے حرزجاں بنالیا‘ وہ ایک ہی نہیں انکے چیلے چانٹے امیت شاہ‘ آدتیہ یو گی جیسے مسلم دشمن ہیں جس کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان نفرت کی دیوار مزید اونچی ہو گئی ہے۔ اب تو یہ حال ہے کہ ہمارے ہاں یا وہاں کوئی بھی دوستی کی بات نہیں کرتا۔ کیونکہ اس طرح انکی سیاسی راہ کھوٹی ہوجاتی ہے۔ رہی بات عوام کی تو وہ جنگ اور نفرت کے خلاف ہیں۔ مگر بھارتی انتہاء پسند ہندوتوا کے حامی دونوں ممالک کے درمیان اختلافات کو ہوا دے کر اپنی سیاسی گدی پکی کرتے رہتے ہیں۔ اب اس وقت جب مودی حکومت بھارت میں مساجد‘ مزارات کو بلڈوزروں سے گرا رہی ہے‘ بڑے بڑے نڈر مسلم رہنمائوں کو قتل کرا رہی ہے‘ ان حالات میں وہ کس منہ سے پاکستان آتے۔ یہاں اپنے ان مظالم پر کیا جواب دیتے۔ کیا وضاحت کرتے۔ شاید اس شرمندگی سے بچنے کیلئے وہ پاکستان نہیں آئے۔ 
٭…٭…٭
لاہور میں طالبہ سے زیادتی کے معاملے پر پنجاب کے کئی شہروں میں طلبہ کے مظاہرے‘ سیاست نہ کی جائے‘ عظمیٰ بخاری کی منطق۔
دل نہیں مانتا کہ ایک خاتون ہونے کے باوجود صوبائی وزیر عظمیٰ بخاری ایسا سنگدلانہ بیان بھی دے سکتی ہیں۔ بے شک اس مسئلے پر سیاست سے لڑکی کے اہل خانہ کی دلآزاری ہوتی ہے۔ مگر کیا مجرم کو سزا دینے کی بات بھی نہ کی جائے۔ اس پر تو سیاست نہیں کی جائے‘ گناہ گاروں کو ہم کب تک بچانے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ کبھی کسی مدرسے کے استاد کو بااثر سفارش سے‘ کبھی قرآن پر معافی مانگنے پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ مسلے اور کچلے جانے والے پھول اور کلیوں کے والدین انصاف بھی نہ مانگیں تو کیا حکومت ازخود ان کو انصاف دلانے کیلئے آگے نہ بڑھے۔ طلبہ کیا ایسے ظالموں کو سزا دینے کیلئے شور بھی نہ کریں۔ والدین تو بچوں اور بچیوں کا قتل تک معاف کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ دھونس‘ دبائو اور لالچ‘ ورنہ جان سے مارنے کی دھمکی کا مقابلہ کون کر سکتا ہے۔ اچھے خاصے پیسے والے بھی پھسل جاتے ہیں۔ پہلے تو یہ معلوم ہونا ضروری ہے کہ اگر یہ ماضی میں بھی غلط کاموں میں ملوث تھا تو اسے گرلز کالج میں نوکری کس نے دی۔ کیا اس سے چال چلن کا سرٹیفکیٹ طلب نہیں کیا گیا۔ اگر سرٹیفکیٹ ہے تو کس نے جاری کیا‘ کس نے تصدیق کی‘ پہلے تو ان کو الٹا لٹکایا جائے۔ کیسے انہوں نے غلط آدمی کو اچھے کردار کا سرٹیفکیٹ جاری کیا۔ آج کل کے حالات میں دیکھ لیں والدین پریشان ہیں‘ چھوٹے بچوں اور بچیوں کو مدرسے یا سکول بھیجتے ڈرتے ہیں جس پر دکھ ہوتا ہے 
’آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے‘ لب پر آسکتا نہیں
 محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائیگی
کب تک ہم ان وحشی درندوں سے رعایت کرتے رہیں گے کب تک ملک کی بچیاں اور بچے انکی وحشت اور بربریت کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے اور جب کوئی آواز بلند کرے تو اسے سیاست کہہ کر خاموش کرانے کی کوشش ہوتی رہے گی۔ وزیراعلیٰ کیلئے یہ ٹیسٹ کیس ہے‘ وہ لاہور میں ہونے والے اس واقعہ کا سخت نوٹس لیں تاکہ مجرموں کو سزا مل سکے۔ 
٭…٭…٭
اسلام آ باد ،میں احتجاج پر پارٹی میں بھی اختلافات تھے۔ پی ٹی آئی رہنما۔ علی ظفر۔
اس بات سے سب آگاہ ہیں کہ کئی دنوں سے 15 اکتوبر کو احتجاج کے مسئلے پر خود پی ٹی آئی کے اندر اختلا فات کی آوازیں اٹھ رہی تھیں۔ مگر ترجمان ہمیشہ سب اچھا ہے کی رٹ لگا کر احتجاج ہر صورت ہوگا کی نوید سناتے رہے۔ باوجود اسکے کہ حکو۔ت ہی نہیں اکثر و بیشتر سیاسی جماعتیں اور پی ٹی آئی کے اتحادی بھی اس مسئلے پر محتاط رہنے کا مشورہ دیتے رہے ہیں مگر وہی مرغے کی ایک ٹانگ والا معاملہ رہا۔ شاید اس طرح پی ٹی آئی والے حکومت پر دبائو برقرار رکھنا چاہتے تھے تاکہ اپنے بانی سے ملاقات کیلئے اجازت مل سکے۔ مگر لگتا ہے حکومت کے سینے میں دل ہی نہیں ہوتا جہاں ہمدردی کے جذبات پیدا ہوں۔ اس لئے حکومت کی طرف سے نولفٹ رہی۔ اب وزیر داخلہ نے بھی کہہ دیا ہے کہ انہوں نے کپتان سے ملاقات کے حوالے سے کوئی یقین دہانی نہیں کرائی۔ پی ٹی آئی کی طرف سے درخواست آئی ہے مگر ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی کہ اس طرح دوسرے قیدیوں کی حق تلفی ہوگی۔ جیل میں سب قیدی برابر ہوتے ہیں تو کسی ایک کو واقعی رعایت دیکر دوسروں کی دل شکنی کیوں کریں۔ اب گزشتہ روز تک پی ٹی آئی کے ترجمان کا بیانیہ تھا کہ اگر بانی سے ملاقات کی اجازت نہیں ملی تو ہر صورت 15 اکتوبر کو اسلام آباد میں احتجاج ہوگا۔ مگر اب پارٹی رہنما علی ظفر کہہ رہے ہیں کہ اس مسئلہ پر پارٹی رہنماء تقسیم ہیں۔ اختلاف رائے موجود ہے‘ متفقہ فیصلہ نہیں ہو رہا۔ بہتر یہی ہے کہ بجائے جگ ہنسائی کے اپوزیشن اپنا یہ شوق بعد میں پورا کرلے۔ اسلام آباد کہیں بھاگا تو نہیں جا رہا۔ میدان بھی موجود ہے اور گھوڑے بھی۔ تو پریشانی کیوں۔ خدا کرے عقل جذبات پر غالب آئے اور ہوش مند مدہوشوں کو غلط حرکت سے روک سکیں۔ باہر کی چھوڑیں کہیں اس مسئلے پر پارٹی میں کوئی فتنہ جنم نہ لے۔ یوں دیوانہ کہیں خود ہی تماشا نہ بن جائے۔

مزیدخبریں