ایثار و قربانی (۱)

Oct 16, 2024

خواجہ نورالزماں اویسی

جس شخص میں خود غرضی نہیں ہوتی وہ اپنے سے زیادہ دوسروں کی ضرورتوں اور خواہشات کا خیال رکھتا ہے اور اس کے بر عکس خود غرض انسان دوسروں کی بجائے ہر وقت اپنے بارے میں سوچتا رہتا ہے۔ اس کی کسی کے بھی نفع و نقصان سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔
بے غرضی انسان کو دوسروں کے ساتھ جوڑتی ہے اور خود غرض انسان تنہا رہ جاتا ہے۔ بے غرضی سے ریاکاری ختم ہوتی ہے اخلاص پروان چڑھتا ہے۔ بے غرضی سے تکبر ختم ہو جاتا ہے اور جذبہ انکسار پیدا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس جو شخص خود غرض ہوتا ہے وہ دوسرں کے حقوق کا بھی خیال نہیں رکھتا اور انہیں غصب کر لیتا ہے۔ اور خود غرض شخص پر سے دوسروں کا اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ 
ایثار سے انسان کے اندر مہربانی ، ہمدردی ، سخاوت ، صبر و تحمل ، عفو درگزر ، امانت و دیانت اور عاجزی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں جس سے پورے معاشرے کو امن و سکون حاصل ہوتا ہے۔ جذبہ ایثار معاشرے کی اجتماعی ضرورت ہے۔
 حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے بازار سے مچھلی خریدی پھر آپ کے پاس سائل آیا تو آپ نے وہ مچھلی اسے دے دی اور فرمایا کہ میں نے حضور نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جو شخص کسی چیز کی خواہش رکھتا ہو پھر اپنی خواہش کو ترک کر دے اور دوسرے کو اپنے اوپر ترجیح دے تو اللہ تعالیٰ اس کو بخش دے گا۔ ( تاریخ دمشق ابن عساکر ) 
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک عورت ایک چادر لے کر حضور نبی کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی اور عرض کی یارسول اللہؐ میں نے اس چادر کو اپنے ہاتھوں سے آپ ؐ کے لیے بنایا ہے تا کہ میں اسے آپ کو پہنائوں۔ نبی کریم ﷺ نے وہ چادر لے لی اور نبی کریم ﷺ کو اس وقت اس کی ضرورت بھی تھی۔ پھر آپ ؐ وہ چادر لے کر باہر تشریف لائے تو ایک شخص نے کہا یا رسو ل اللہ ؐ آپ یہ مجھے عطا کر دیں۔ آپؐ نے فرمایا ہاں (یہ تمہیں دے دیں گے ) پھر آپ ؐ مجلس میں بیٹھ گئے اور پھر جب آپ ؐ جانے لگے تو چادر کو لپیٹ کر اس شخص کے پاس بھیج دیا۔ لوگوں نے اس شخص سے کہا تم نے اچھا نہیں کیا تم نے آپ  سے یہ چادر مانگ لی حالانکہ تم جانتے تھے کہ آپ ؐ کسی کا سوال رد نہیں کرتے۔ اس شخص نے کہا اللہ تعالیٰ کی قسم میں نے اس چادر کا سوال اس لیے کیا کہ جب میں مروں تو آپ ؐ کے جسم مبارک سے لگی ہوئی چادر میرا کفن بنے۔ حضرت سہل فرماتے ہیں پھر وہ چادر اس شخص کا کفن بنی۔ ( بخاری )۔

مزیدخبریں