آئینی ترامیم:  پارلیمانی کمیٹی کا مسودوں کا جائزہ

آئینی ترامیم پیکیج کے سلسلے میں سیاسی جماعتوں کے باہمی روابط اور تجاویز کا سلسلہ جاری ہے۔ ترامیم کے حوالے سے پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) نے اپنا مسودہ پیش کردیا ہے۔ 26ویں آئینی ترامیم کے لیے مشترکہ مسودہ بنانے کی تیاری کے سلسلے میں خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس خورشید شاہ کی زیر صدارت ہوا جس میں 21 ارکان پارلیمنٹ نے شرکت کی۔ اے این پی نے ہائیکورٹ کے جج کی تقرری کی حد عمر 40 سال کرنے کی مخالفت کردی۔ اے این پی کی طرف سے کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس پاکستان کی تعیناتی کی مدت تین سال کرنے کی تجویز بھی غیر مساوی ہے۔ اے این پی نے صوبائی آئینی عدالتوں کے قیام کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ صوبوں میں آئینی عدالتوں کے قیام سے غیر ضروری مالیاتی بوجھ پڑے گا۔ سپریم کورٹ میں تمام صوبوں کے ججز کی تعداد برابر کرنے، آرٹیکل 76 اور آرٹیکل ایک میں ترمیم کی تجویز دی ہے۔ آئین کے آرٹیکل ون میں ترمیم کر کے خیبر پختونخوا کا نام تبدیل کر کے صرف پختونخوا کیا جائے۔ علاوہ ازیں، شیری رحمان اور ڈاکٹر عاصم حسین کی سندھ ہائوس میں ایم کیو ایم کے وفد سے ملاقات ہوئی۔ ایم کیو ایم وفد میں گورنر سندھ کامران ٹیسوری، ڈاکٹر فاروق ستار اور امین الحق موجود تھے۔ دونوں جماعتوں کے درمیان آئینی ترمیم اور شفافیت کے ساتھ آگے بڑھنے پر اتفاق ہوا۔ بعدازاں، کمیٹی نے مجوزہ مسودوں پر مزید مشاورت کے لیے وقت دینے کی تجویز مسترد کرتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کے مسودوں کا جائزہ لینا شروع کیا۔ دوسری جانب، فضل الرحمن نے کہا گفتگو اور مذاکرات کے نتیجے میں آئینی ترامیم پر کافی حد تک ہم آہنگی پیدا ہو چکی ہے۔ ٹنڈو الہ یار میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ پارلیمنٹ کا کام ہی آئین اور قانون میں ترمیم کرنا ہے لیکن آئینی ترمیم آتی ہے تو اس پر اختلاف بھی ہوتا ہے۔ ملکی حالات اور ضرورت کے تحت قانون سازی ہونی چاہیے، ہم نے ملک اور عوام کے مفاد میں سب کچھ کرنا ہے۔ آئین میں ملکی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے ترامیم کی گنجائش موجود ہے۔ اگر ملکی مفاد میں ترمیم ناگزیر ہو تو ضرور کی جانی چاہیے۔ اختلاف برائے اختلاف کی سیاست مناسب نہیں، ملک کو مستحکم بنانے کے لیے اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے اتفاق رائے بھی ضروری ہے۔

ای پیپر دی نیشن

تفہیم مکالمہ... ڈاکٹر جمیل اختر

jamillahori@gmail.com اساتذہ اور علماءکو انبیاءکا وارث قرار دیا گیا ہے، اور یہ محض ایک استعارہ نہیں، بلکہ اس بات کی علامت ہے کہ یہ افراد ...