بیلجیم کے دار الحکومت برسلز میں آج پہلا خلیجی – یورپی سربراہ اجلاس منعقد ہو رہا ہے۔ اجلاس میں خلیج تعاون کونسل اور یورپی یونین کے رکن ممالک کی قیادت اور سربراہان شریک ہوں گے۔ اجلاس کی صدارت مشترکہ طور پر قطر کے امیر شیخ تميم بن حمد آل ثانی اور یورپی کونسل کے سربراہ چارل مچل کریں گے۔
آج ہونے والا سربراہ اجلاس اس حوالے سے اہمیت کا حامل ہے کہ یہ فریقین کے درمیان 1989 میں سرکاری طور پر تعلقات کے قیام کے بعد ممالک اور حکومتوں کے سربراہان کی سطح پر پہلا اجلاس ہو گا۔ آج کے اجلاس میں 33 مالک کے سربراہان اور وزرائے اعظم شرکت کر رہے ہیں۔ اجلاس کا انعقاد خلیج تعاون کونسل بالخصوص سعودی عرب کی خواہش پر کیا جا رہا ہے جس کا مقصد عالمی ممالک اور بلاکوں کے ساتھ تزویراتی تعلقات کو مضبوط بنانا ہے۔ اجلاس میں بین الاقوامی رابطہ کاری کی سطح کو بلند کرنے کے علاوہ باہمی دل چسپی کے امور بھی زیر بحث آئیں گے۔خلیجی ممالک نے یورپی یونین کے ساتھ تزویراتی شراکت داری میں واضح نمو کو یقینی بنایا ہے بالخصوص جن کا اعلان 2022 میں کیا گیا۔العربیہ ڈاٹ نیٹ کو حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق 2023 میں سعودی عرب اور یورپی یونین کے درمیان تجارتی تبادلے کا حجم 78.8 ارب ڈالر رہا۔ مذکورہ سال سعودی عرب کی جانب سے یورپی یونین کے لیے برآمدات کی قیمت 38.4 ارب ڈالر جب کہ یونین سے درآمدات کی قیمت 40.9 ارب ڈالر تھی۔ یورپی یونین کو سعودی عرب کا دوسرا بڑا تجارتی شریک شمار کیا جاتا ہے۔اقتصادی طور پر سعودی عرب میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری لانے کے حوالے سے یورپی یونین کا پہلا نمبر ہے۔ تقریبا 500 یورپی کمپنیوں نے مملکت میں مختلف سیکٹروں میں تجارتی سرگرمیوں کے لیے سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ سعودی عرب میں یورپی کارکنان کی تعداد تقریبا 20 ہزار ہے۔دونوں بلاکوں کے بیچ مضبوط اقتصادی تعلقات کے اظہار کے تناظر میں ریاض میں خلیجی سطح پر پہلا یورپی چیمبر آف کامرس قائم کیا گیا۔ اس کا مقصد یورپی اور خلیجی منڈیوں تک رسائی آسان بنانا، مختلف چیلنجوں کو حل کرنا اور سعودی عرب سمیت خلیجی ممالک میں طویل مدتی اقتصادی ترقی میں کردار ادا کرنا ہے۔اسی سے متصل میدان میں ویژن 2030 پروگرام اور یورپی گرین معاہدہ ،،، سعودی عرب اور یورپی یونین کے بیچ تعاون کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ ان میں ماحولیاتی تبدیلی، صاف توانائی کی جانب تبدیلی کا عمل تیز کرنے، تجارتی وسرمایہ کاری، ڈیجیٹلائزیشن، پائیدار سپلائی چینز، اور سبز تبدیلی سے متعلق امور خصوصی طور سے شامل ہیں۔جہاں تک سیاحت کے شعبے کا تعلق ہے تو اس مقصد سے خلیجی ممالک اور سعودی عرب آنے والے یورپی شہریوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ سعودی عرب کی ثقافتی اور قدرتی ثروت ان کے لیے کشش کا باعث ہے۔اسی طرح ثقافت اور زبان کے تنوع کے اعتبار سے یورپ خلیجی سیاحوں کے لیے ایک مستقل منزل رہا ہے۔ اس سلسلے میں متعارف کرایا جانے والاVisa Cascade نظام ویزا کی چھوٹ سے قبل کے مرحلے میں ایک نمایاں ترین اقدام ہے۔ان سب امور کے باوجود معیشت کسی طور بھی سیاست سے الگ نہیں۔ جہاں ایک طرف برسلز میں اپنی نوعیت کا پہلا سربراہ اجلاس منعقد ہو رہا ہے وہاں دوسری طرف سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اپنی کارکردگی سے بین الاقوامی سطح پر مملکت کے مقام کو نمایاں بنا رہے ہیں۔ اس چیز نے علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر رابطہ کاری میں سعودی عرب کے فعال اور قائدانہ کردار کی کامیابی پر مہر ثبت کی ہے۔ ان کوششوں کا مقصد بین الاقوامی سطح پر جیو پولیٹیکل چیلنجوں کو زیر بحث لانا، مشرق وسطی کے تنازع میں اضافے پر روک لگانا، غزہ میں جنگ روکنے کے لیے حل تلاش کرنا اور روس یوکرین بحران کے تصفیے کا راستہ تلاش کرنا ہے۔سعودی عرب نے مصر اور اردن کے تعاون سے ستمبر 2023 میں نیویارک میں اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں عرب لیگ کی شرکت سے یورپی یونین کے ساتھ وزراء کی سطح کے اجلاس کے لیے رابطہ کاری انجام دی۔ اجلاس میں تقاریبا 50 وزرائے خارجہ موجود شریک ہوئے۔ شرکاء کے اجلاس نے فلسطینی اراضی میں امن عمل کو زندہ کرنے اور دو ریاستی حل تک پہنچنے کی ضرورت پر زور دیا۔سعودی عرب نے اس پانچ رکنی کمیٹی کی سربراہی بھی انجام دی جس کی منظوری عرب اور اسلامی ممالک کے غیر معمولی مشترکہ سربراہ اجلاس میں دی گئی تھی۔ مملکت نے غزہ میں فوری جنگ بندی کے لیے بین الاقوامی سطح پر متحرک ہونے کے عمل کی قیادت کی ، بین الاقوامی انسانی قوانین کے مطابق شہریوں کا تحفظ یقینی بنانے پر زور دیا اور ایک حقیقی و سنجیدہ سیاسی عمل کے آغاز کے لیے دباؤ ڈالا تا کہ جامع اور مستقل امن کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس کے نتیجے کئی اہم کامیابیاں سامنے آئیں جن میں نمایاں ترین پیش رفت اسپین، آئرلینڈ، ناروے اور سلووینیا کی جانب سے فلسطینی ریاست تسلیم کرنے کا اعلان ہے۔علاوہ ازیں ریاض نے 27 ستمبر کو فلسطین کے معاملے سے متعلق وزارتی اجلاس کے دوران میں "دو ریاستی حل پر عمل درآمد کے لیے بین الاقوامی اتحاد" کا اعلان کیا۔ اس اتحاد کا اعلان عرب اور یورپی ممالک کی مشترکہ کوششوں کا نتیجہ ہے