نیتن یاہو مت بھولیں اسرائیل کا قیام اور وجود اقوام متحدہ کی قرار داد کے مرہون منت ہے

اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کو یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ان کے ملک اسرائیل کا قیام محض اقوام متحدہ کی قرارداد کے نتیجے میں عمل میں لایا گیا تھا۔ یہ بات فرانس کے صدر عمانویل میکروں نے منگل کے روز اپنی کابینہ میں گفتگو کرتے ہوئے اس وقت کہی جب وہ اسرائیل کو اقوام متحدہ کے ادارے کی قراردادوں اور چارٹر پر عمل کے لیے کہہ رہے تھے۔پچھلے ہفتے سے نیتن یاہو اور میکروں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ اسرائیل کی لبنان کے اندر تک چلی گئی جنگ کے بعد فرانس کے صدر نے اصرار کے ساتھ کہا تھا کہ اسرائیل کو اسلحے کی سپلائی روک دینی چاہیے۔ تاکہ جاری تصادم کو روکنے میں مدد ملے۔فرانس نے لبنانی سرحد پر تعینات امن فوجیوں پر اسرائیلی فوج کی گولہ باری کے واقعات کی بھی مذمت کی ہے۔ اس امن فوج میں فرانس کے فوجی بھی شامل ہیں۔ علاوہ ازیں بھی لبنان میں فرانس کے مفادات کئی دہائیوں سے چلے آرہے ہیں۔ جن کو فرانس اس جنگ کی صورت میں نقصان پہنچتا دیکھ رہا ہے۔فرانس کے صدر نے کابینہ کے اجلاس میں نومبر 1947 کی اس قرارداد کا بھی ذکر کیا جو جنرل اسمبلی نے منظور کی تھی۔ تاکہ فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ایک یہودی ریاست قائم کی جائے اور ایک عرب ریاست بنا دی جائے۔ یہ کہتے ہوئے میکروں نے کہا ' نیتن یاہو کو یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اسرائیل کا قیام اور وجود اسی قرارداد کے مرہون منت ہے۔ 'اس طرح لبنان کی جنوبی سرحد پر اقوام متحدہ کی امن فورس ' یونیفل ' کا قیام اور وجود بھی اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 1701 کے باعث ہے، یہ قرارداد 2006 میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے منظور کی تھی۔اتوار کے روز اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ اپنی دس ہزار کی امن فوج کو اسرائیلی زمینی فوج کے لبنان میں حملے کے راستے سے دور لے جائے۔ ان میں 700 فرانسیسی امن فوجی بھی شامل ہیں۔ کیونکہ حزب اللہ اس امن فوج کو اپنے لیے ایک ڈھال کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔صدر میکروں نے مزید کہا ' اس لیے یہ وقت نہیں ہے کہ اقوام متحدہ کے فیصلوں کی خلاف ورزی کی جائے۔ جیسا کہ اسرائیل نے ایرانی حمایت یافتہ حزب اللہ کے خلاف شروع کر دہ جنگ کے دوران جنوبی سرحد پر اقوام متحدہ کے امن دستوں کا گولہ باری سے نشانہ بنایا ہے۔ فرانسیسی کابینہ کے اجلاس میں میکروں کے کہے ہوئے یہ الفاظ اجلاس میں شریک ایک اہم ذریعے نے ' اے ایف پی ' کے ساتھ شیئر کیے ہیں۔ تاہم نام ظاہر نہ کرنے کی شرط بھی پیش کی۔

ای پیپر دی نیشن