لہو ٹپکتا ہے کشمیر کے چناروں سے
نکل رہا ہے کوئی چاند اشک پاروں سے
لہو لہو ہوئی کشمیر کی حسیں وادی
سنو! نوشتہ دیوار ہے یہ آزادی
سنو کہ اٹھے ہیں آندھی کی مثل خاک بہ سر
ڈریں گے کیا کہ جو رکھتے ہیں سر ہتھیلی پر
ہجوم ہے کہ سمندر نکل پڑا گھر سے
یہ وہ جنوں ہے کہ جائے گا ساتھ اس سر کے
چلاﺅ گولی‘ یہ سینے ہمارے حاضر ہیں
ہم ایک صبحِ حقیقت ہیں سب پہ ظاہر ہیں
ہمارا عزم گرائے گا ساری دیواریں
کفن ہمارے‘ ہمارے لیے ہیں دستاریں
کہاں غلام رہیں گے حمیتوں والے
مراد پائیں گے آخر یہ نیتوں والے
شہادتوں سے اٹھے گی ہماری آبادی
حیات و موت ہے اپنے لیے یہ آزادی
سحر قریب ہے سورج ضرور نکلے گا
یہ برف برف سا منظر ضرور پگھلے گا
نہیں ہے سعد یہ طوفان اب کے رُکنے کا
کہ سر بکف کسی صورت نہیں ہے جھکنے کا