پاکستان کی کثیرالجہات تباہی اپنوں کی کارستانی ہے اور اس کا حجم اب اتنا بڑا ہو چکا ہے کہ جس پر پردہ ڈالنے کے لئے ہر جانب سے یہ آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ بیرونی قوتیں پاکستان کو تباہ کرنا چاہتی ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ بیرونی طاقتیں تب کسی ملک کو تباہ کرتی ہیں جب اس کے معمار اس کو گرانے میں مصروف ہوں۔ ابھی کل کی بات ہے کہ ایک نحیف سا اور ضعیف ترین شخص ایک پلے کارڈ اٹھائے مال روڈ کے کنارے کھڑا تھا۔ اس کے کارڈ پر لکھا تھا ”پاکستان کو قائداعظم کا پاکستان بنائیں“ کتنی ہی دیر میں اس کے جھریوں بھرے چہرے پر وطن عزیز میں پڑتی وہ دراڑیں دیکھتا رہا جن کے کنارے کوئی بھی غیر نہ تھا بہرصورت وہاں سے گزر گیا مگر وہیں ٹھہرا رہ گیا۔ آج عوام سے لے کر خواص تک اور بالخصوص حکمران و سیاستدان طبقہ بے جا تنقید اور باہمی جھگڑوں میں اپنے ذاتی مفادات کے لئے دست و گریباں ہے۔ کراچی کی زبوں حالی کیا ہے۔ مختلف سیاسی و حکومتی دھڑوں کا مفادات پر تصادم ہے۔ جسے چھپانے کے لئے لندن سے لے کر پاکستان تک پاکستانی ہی دلائل دے رہے ہیں کہ بیرونی دشمن ارض پاک کی بربادی چاہتے ہیں چونکہ ملک کو ملک کے رکھوالے غیر محفوظ بنا چکے ہیں۔ اس لئے اشرافیہ، سیاستدان، حکمران اپنے اپنے خاندان باہر منتقل کر چکے ہیں یا سارے انتظامات کرکے پا بہ رکاب بیٹھے ہیں۔ ملک کے اکثر حصوں میں سیلاب اور ڈینگی نے الگ تباہی مچا رکھی ہے اور مبصرین بتاتے ہیں کہ کراچی میں وہی ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کا بازار گرم ہے۔ عدلیہ ہے تو اس کے فیصلے عملدرآمد سے محروم ہیں اور کرپشن ہے تو روکنے والے اس میں گھٹنوں گھٹنوں غرق ہیں۔ ایک طرف سے یہ خبرِ بد بھی سنائی دے رہی ہے کہ امریکہ اسرائیل کے ذریعے ایران پر حملہ کے لئے تیار بیٹھا ہے اور ترکی بھی امریکہ سے بدظن ہو چکا ہے جبکہ پاکستان کے جسم میں رتی بھر خون نہ چھوڑ کر بھی امریکہ راضی نہیں اور اوباما نے ہر اتحادی کے تعاون کا ذکر کیا لیکن پاکستان کا نام تک نہیں لیا۔ اگر ایران پر خدانخواستہ حملہ ہوتا ہے تو ترکی ایران پاکستان کی بہتری اسی میں ہے کہ ابھی سے متحد ہو کر امریکی یلغار کا مقابلہ کرنے کے لئے معاہدہ کر لیں۔ پاکستان اپنی جگہ پر قائم ہے اور اس کی معجزاتی موجودگی سے اس ملک کے رکھوالے کھیل رہے ہیں اور عوام ہیں کہ تکلیفات و مشکلات کی کثرت جھیل رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اب تو وطن عزیز ایسے عناصر کی ان آوازوں سے بھی گونجنے لگا ہے کہ سرحدیں مٹا دو۔ قائداعظم سیکولر تھے۔ انہوں نے کبھی لاالہ الا اللہ کا نعرہ نہیں لگایا۔ کچھ وہ بھی ہیں کہ لاکھوں روپے لے کر بھی وطن کے خلاف دو قومی نظرئیے کی مخالفت میں مصروف ہیں۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں جب کسی ملک قوم کی نظریاتی سرحد کمزور پڑ جائے عیش و نشاط کی فراوانی اور قومی خزانے کو خالی رکھنے کی مہم جاری ہو۔ قرضوں پر وطن کے بجائے تعیشات گاہیں چل رہی ہوں۔ ناچ رنگ، بدکاری، شراب نوشی اور دیگر تن آسانیاں عام ہو جائیں تو باہر سے حملہ آور خالی گھر دیکھ کر دیو بن کر اس میں بسیرا کر لیتے ہیں۔ اس وقت ہم اپنی بربادی میں محو ہیں اور اغیار دیکھ رہے ہیں کہ کب کہیں سے شگاف ہو تو وہ بھی اس تباہی میں شامل ہو جائیں جس میں ہم من حیث القوم مشغول ہیں اور ہمیں پرواہ نہیں۔ سقوط بغداد سقوط ڈھاکہ اور اب سقوط امہ میں خود امت ہی کا ہاتھ ہے۔ ملک سراپا کرپشن بن چکا ہے اور اگر این آر او کی رقومات بھی واپس لے آئی جائیں تو بھی یہ گرتی دیوار معیشت کم از کم کھڑی رہ سکتی ہے جو قوم اپنے نام نہاد قائدین کی اتنی وفادار کہ وہ قبر میں سے بھی بولیں تو ان کے ارشادات کو حق سمجھیں۔ کہئے اس کو تو انسان کیا، گدھا بھی ہانک سکتا ہے۔ ہم فوج کو بلاتے نہیں مگر اس کی طرف دیکھتے ضرور ہیں۔ کراچی میں رینجرز کو مکمل اختیارات اب بھی حاصل نہیں اور نہ ہی بلاامتیاز کارروائی ہو رہی ہے۔ پھر وہاں امن و امان کیسے قائم ہو۔ باہر کا دشمن تب غالب آتا ہے جب اندر کا دشمن منہ زور ہو جائے اور عوام میں ان سرکش گھوڑوں کو لگام دینے کی جرات ہو نہ سکت کہ ایک پروگرام کے تحت قوم یعنی عوام الناس کو ان مشکلات میں ڈال دیا گیا ہے کہ وہ اپنے حکمرانوں کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی فرصت بھی نہیں رکھتے۔ بھارت نے کشمیر پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے اور آزاد کشمیر کے لئے رندانِ آز تیز کر رہا ہے مگر ہمارے بعض معاصر اس فکر میں ہیں کہ بس دولت ملے چاہے ملک کی بنیاد ہلے یا قائداعظم کا پاکستان اجڑے۔ نظریہ پاکستان کا نام لینے والوں کو نظریہ فروش سمجھتے ہیں اور اپنی وطن فروشی سے لوگوں کی نظریں ہٹانے کے لئے شردھالو رکھے ہوئے ہیں جن کے قلم صریر خامہ سے آشنا تو کیا ہنگامہ شیطنت بپا کئے ہوئے ہیں جو قائداعظم جیسے مرد مسلم کو سیکولر اور پاکستان کو سیکولر سٹیٹ کہتے ہیں ان میں ایک بھی امریکی ہے نہ برطانوی نہ یورپی یونین کا سارے ہی وہ ہیں جو اکھنڈ بھارت کے لئے دولت کے کھنڈر پر بیٹھ کر خوش ہیں کہ وہ شاید بچ جائیں گے۔ یہ ملک قائم رہے گا، اس لئے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان سرحدیں مٹانے کے شائق کوئی مفت کام نہیں کر رہے اور یہ مزدور مزدوری وصول کرکے شاید اب یہاں سے ہجرت کرکے وہیں چلے جائیں جہاں سے آئے تھے۔ سیاست اور حکمرانی کو ایک بہت اچھا بہانہ ہاتھ آ گیا ہے کہ ہم تو اس ملک کے جیالے ہیں متوالے ہیں۔ دیوانے ہیں، بس ہمیں خطرہ ہے تو بیرونی پاکستا دشمن قوتوں سے اور اسی چھتر چھاﺅں میں وہ اپنے تنور حرام سے بھر رہے ہیں، یہ جو ملک مختلف قسم کے عذابوں سے گزر رہا ہے صرف اس لئے کہ شامت اعمالِ ما صورت نادر گرفت، اپوزیشن اور حزب اقتدار کا اختلاف ملکی عوامی مسائل پر نہیں، حلوے کی دیگ پر ہے۔ بااستثنائے چند تقریباً ہر پیٹ میں لقمہ حرام جا رہا ہے۔ آخر یہ اس کی بد رنگی تو رنگ لا رہی ہے۔ حیرانی ہے کہ پولیس کا سب انسپکٹر بھی کروڑوں کی جائیداد بنا کر پنشن کو جوتے کی نوک پر رکھتا ہے۔ بیرونی قوتیں اگر ہماری اپنی کمائی ہوئی تباہی میں شمولیت اختیار کر بھی لے تو کیا بعید ہے مگر سردست حرام خوروں کو یہ ایک اچھا بہانہ مل گیا ہے کہ لوگو! ایک لقمے کی جگہ آدھا لقمہ کھاﺅ کہ بیرونی حملوں کا خطرہ ہے اور بیرونی طاقتیں ہمیں برباد کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ ہم وہ اندرونی لٹیرے ہیں جنہوں نے بیرونی لٹیروں کے لئے بھی کچھ باقی نہیں چھوڑا۔ سود پر قرضے لے کر ہمارے حکمران پل رہے ہیں اور بچا کھچا قوم کو بھی کھلا رہے ہیں۔ ہم خود اپنے دشمن ہیں۔ ہمیں اپنے لیڈروں سے خطرہ ہے۔ جسے چھپانے کے لئے باہر کے دشمنوں کے حملہ آور ہونے کا بہانہ تراشا گیا ہے۔ لندن اور امریکہ میں ہی ہماری تباہی بھی ہے اور رہن سہن بھی کہئے یہ کیسی سیاسی منافقت ہے، جس پر اللہ کی گرفت سے بھی کوئی نہیں ڈرتا۔