سندھ، بارش سےمتاثرہ علاقوں میں وبائی امراض شدت اختیار کرگئے، چوبیس لاکھ افراد ملیریا، ہیضہ اور جلدی امراض میں مبتلا، بیماریوں سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد تین سو ہوگئی ۔

حیدرآباد کےعلاقوں قاسم آباد فیز ون اور ٹو سمیت مختلف علاقوں میں موجود بارش کے پانی نے عوام کا جینا محال کردیا ہے۔ جھڈو سےاپنی مدد آپ کے تحت نقل مکانی کرنے والے ہزاروں متاثرین بے یارو مددگارمختلف علاقوں میں کھلے آسمان تلے زندگی گزار رہے ہیں۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ انہیں خوراک کی شدید کمی کا سامنا ہے۔دوسری جانب علاقے کے کئی دیہات پانی میں ڈوبے ہیں جہاں پاک بحریہ کے جوان متاثرین کو محفوظ مقامات پر منتقل کررہے ہیں۔ ضلع بدین میں پنگریو،شادی لارج اور کھوسکی سمیت کئی علاقوں میں کئی کئی فٹ پانی کھڑا ہے جس کی وجہ سے پیٹ اور جلدی بیماریاں عام ہوگئی ہیں۔ دادو کے ایف پی بند پر پناہ لئے ہزاروں متاثرین خوراک اور صافی پانی سے محروم ہیں۔نجی وسرکاری سکولوں میں بارش کا پانی کھڑا ہونے کی وجہ سے تدریسی سرگرمیاں شروع نہیں ہوسکی ہیں۔ خیرپور کی تحصیلوں نارا اور فیض گنج میں سیلابی ریلوں اور بارش سے سینکڑوں گھر تباہ ہوگئے ہیں جبکہ متعدد دیہات کا زمینی رابطہ ابھی تک منقطع ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نےکہا ہے کہ سندھ کےسیلاب سےمتاثرہ علاقوں میں چھ لاکھ سولہ ہزار پانچ سو افراد آشوب چشم، پانچ لاکھ ساٹھ ہزار کے قریب جِلدی بیماریوں اور ساڑھے سات لاکھ ہیضے کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ دو لاکھ ستر ہزار سے زیادہ لوگ سانس کی بیماری جبکہ ایک لاکھ پچاسی ہزار ملیریا کا شکار ہیں جن میں سےسولہ سو ساٹھ افراد کی حالت تشویشناک ہے۔ گزشتہ روز چون افراد جاں بحق ہوئے جس کے بعد ہلاکتوں کی تعداد تین سو سے تجاوز کرگئی ہے۔

ای پیپر دی نیشن