نظرےہ¿ پاکستان کسی جرنےل کی درےافت نہےں

پرنٹ اور الےکٹرانک مےڈےا سے وابستہ کچھ شخصےات نے نظرےہ¿ پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کو اپنا وطےرہ بنا لےا ہے۔ جس طرح کچھ لوگ اسلامی اقدار کی مخالفت کرکے خود کو روشن خےال ےا لبرل کہلوانے مےں طمانےت محسوس کرتے ہےں‘ اسی طرح کچھ عناصر قےامِ پاکستان کی بنےاد ثابت ہونے والے نظرےے کے وجود سے انکار کرکے تارےخ مسخ کرنے پر تلے ہوئے ہےں۔ دو روز قبل اےک قومی اخبار کے فاضل کالم نگار نے ”نظریہ¿ پاکستان کی ایجاد کا اصل مقصد “کے عنوان سے اپنے کالم میں نظرےہ¿ پاکستان کی اصطلاح کو پاکستان کے اےک سابق فوجی آمر جنرل آغا محمد ےحےیٰ خان کی حکومت مےں وزارتِ اطلاعات و نشرےات کے سربراہ جنرل شےر علی خان کی درےافت قرار دے ڈالا۔ علاوہ ازیں وطن عزےز کے چند مخصوص ذرائع ابلاغ مےں عرےانی وفحاشی کے سےلاب کے خلاف عوامی غم وغصے کی موجودہ لہر کو بھی نظرےہ¿ پاکستان کا شاخسانہ قرار دے دےا۔ فاضل کالم نگار کے وسےع المطالعہ ہونے مےں تو کوئی شک نہےں تاہم ےوں معلوم دےتا ہے کہ کچھ اہم تارےخی حقائق ان کی نظروں سے اوجھل ہےں ےا پھر وہ اپنی آنکھوں پر مخصوص مفادات کی پٹی باندھے ہوئے ہیں ۔ بہرحال ان کی معلومات اور رےکارڈ کی درستگی کے لئے ےہ بتانا ضروری ہے کہ ”نظرےہ¿ پاکستان“ کی اصطلاح کسی جرنےلی ٹکسال مےں نہےں گھڑی گئی بلکہ ےہ تحرےکِ قےامِ پاکستان کی روح ہے۔ حصولِ آزادی کی جدوجہد کے دوران برصغےر کے طول و عرض مےں ہر مسلمان مرد اور عورت‘ بوڑھے اور جوان حتیٰ کہ کم سن بچوں کی زبان پر ےہ نعرہ گونج رہا تھا کہ ”پاکستان کا مطلب کےا....لا الٰہ الا اللہ“ جس کا واضح مطلب ےہی تھا کہ وہ اپنے لےے اےک اےسی آزاد رےاست قائم کرنا چاہتے ہےں جہاں کے نظام ہائے حکومت‘ سےاست‘ معےشت اور معاشرت کی بنےاد اللہ تعالیٰ کے احکامات اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلےمات ےا باالفاظ دےگر قرآن و سنت پر ہوگی۔ قائداعظمؒ نے اسی تناظر مےں فرماےا تھا کہ ”اسلام اور ہندو دھرم محض مذاہب نہےں ہےں بلکہ درحقےقت وہ دو مختلف معاشرتی نظام ہےں‘ چنانچہ اس خواہش کو خواب و خےال ہی کہنا چاہےے کہ ہندو اور مسلمان مل کر اےک مشترکہ قومےت تخلےق کرسکےں گے۔“ آل انڈےا مسلم لےگ کے 28وےں سالانہ اجلاس منعقدہ 14اپرےل بمقام مدراس مےں خطبہ¿ صدارت کے دوران اس امر کو اور زےادہ واضح الفاظ مےں ےوں بےان فرما دےا: ”مسلم لےگ کی آئےڈےالوجی ےا نظرےہ اس بنےادی اصول پر مبنی ہے کہ مسلم ہندوستان اےک الگ اور آزاد قومےت رکھتا ہے۔ اس کی قومےت ےا سےاسی شناخت ےا وجود کو مدغم کرنے کی کوشش کی نہ صرف مزاحمت کی جائے گی بلکہ مےری رائے مےں کسی کے لےے اےسا کرنا بھی اےک سعی¿ لاحاصل ہوگی۔ ہم ےہ عزم کرچکے ہےں اور اس ضمن مےں کوئی غلط فہمی نہےں رہنی چاہےے کہ برصغےر مےں ہم اےک آزاد قوم اور آزاد رےاست کا مقام حاصل کرکے رہےں گے۔“ مسلمانوں مےں ہندوﺅں سے الگ قوم ہونے کا شعور ہی دو قومی نظرےہ ہے جس کی بنےاد پر اُنہوں نے اپنے لےے جداگانہ انتخابات کا مطالبہ کےا تھا اور اسی نظرےے کو عملی جامہ پہنانے کے لےے 1906ءمےں آل انڈےا مسلم لےگ کا قےام عمل مےں آےاتھا۔ مسلم لےگ کے پلےٹ فارم سے مسلمان رہنماﺅں نے ہندوﺅں کے ساتھ مصالحت کی ہر ممکن کوشش کی مگر ہندو قےادت کے ذہن مےں ”رام راج“ کا خناث سماےا ہوا تھا‘ لہٰذا مسلمانوں بالخصوص قائداعظمؒ کی وہ تمام کوششےں رائےگاں گئےں حالانکہ اےک وقت مےں تو خود ہندو زعماءنے قائداعظمؒ کو ”ہندو مسلم اتحاد کا سفےر“ قرار دےا تھا۔ 1937ءکے انتخابات کے نتےجے مےں جب متحدہ ہندوستان کے زےادہ تر صوبوں مےں کانگرےسی وزارتےں قائم ہوگئےں تو ”ہندو توا “کی علمبردار کانگرےس کا مسلمانوں کے خلاف رواےتی کےنہ اور تعصب کھل کر سامنے آگےا اور مسلمان ےہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ جب کبھی انگرےزوں نے برصغےر سے کوچ کےا تو وہ ہندو اکثرےت کے رحم و کرم پر ہوں گے جس مےں ان کا دےن‘ عقائد اور رسومات کچھ بھی محفوظ نہ رہے گا۔ کانگرےسی وزارتوں کی ےہ مسلمان دشمنی مسلمانانِ ہند کے طوےل المےعادمفادات کے حوالے سے اےک نعمت غےر مترقبہ ثابت ہوئی اور اُنہوں نے قائداعظمؒ کی قےادت مےں اپنی سےاست کو اپنے علےحدہ اسلامی تشخص کی بنےادپر منظم کرنے کا ارادہ کرلےا۔         (جاری)

ای پیپر دی نیشن