تجارت سے ملکوں کی خوشحالی ضرور وابستہ ہو گی تاہم اندرون ملک صنعتی نظام و زرعی پیداوار کا سلسلہ بھی مربوط ہونا لازمی امر ہے کہ ہم اپنی ملکی پیداوار و اجناس کی مناسب درآمد سے اچھا خاصا زرمبادلہ کما سکیں۔ ایک نکتہ سمجھ سے بالا تر ہے کہ ملک اقتصادی مسائل و پیداواری بحران کا شکار ہو تو ہم سود مند و کارآمد تجارت کا کس طرح سوچ سکتے ہیں۔ ہمارا تاجر طبقہ تو خود اپنے کاروباری نظام سے تنگ پڑا ہے۔ ماضی میں برصغیر پاک و ہند کی سرزمین پہ انگریز کے قدم بسلسلہ تجارتی اعتراض سے ہی جمے تھے یہاں تک کہ وہ اپنی حکومت قائم کر بیٹھے۔ ہماری موجودہ حکومت پاک بھارت تجارتی تعلقات کو ہی بہتر تعلقات کی راہوں پہ رواں دواں خیال کر رہی ہے۔ وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کا کہنا ہے کہ اقتصادی دنیا کیلئے پاکستان توانائی، نقل و حمل، سرمایہ کاری اور سیاحت کے شعبوں میں تعاون کی کثیر جہتی راہ گزر کیلئے کھلا ہے۔ یہاں سرمایہ لے جانے والوں پہ پابندی نہیں بلکہ سرمایہ کاری کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔ راجہ پرویز اشرف صاحب پاکستانی عوام کا دل موہ لیتے اگر وہ ایسا کہتے کہ پاکستانی تاجروں کو عالمی منڈی میں زرعی و صنعتی پیداواری اجناس کی ترسیل کیلئے یا مارکیٹنگ کیلئے مزید مواقع فراہم کر دیئے گئے ہیں اور ہم اپنی زرعی و صنعتی پیداوار کو بڑھانے کیلئے دن رات کام کریں گے تاکہ ملک کی معیشت مستحکم اور ہم خوشحال ہوں سکیں.... اس میں شک نہیں کہ پاکستان بجلی کی پیداوار، تیل و گیس کی تلاش اور انفراسٹرکچر کی ترقی کی شعبوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری کیلئے پرکشش مقام کی حیثیت رکھتا ہے تاہم اس کشش کا فائدہ ہمیں ہی ہونا چاہیے....حکومت پاکستان بھارت کی خواہش کے مطابق بھارت کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات کو مستحکم کرنا چاہ رہی ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا کے حالیہ تین روزہ پاکستانی دورے میں پاک بھارت لاتعداد مسائل زیر بحث آئے جن میں دہشت گردی، منشیات کی غیر قانونی تجارت، بمبئی حملوں کی تحقیقات، ویزوں کی سہولیات اور تجارتی لین دین کیلئے باہمی تعاون وغیرہ سر فہرست رہے۔ بھارتی آبی جارحیت اور بلوچستان میں بھارت کی دراندازی جیسے معاملات کسی مرحلے میں زیر بحث نہ آئے یہاں تک کہ مسئلہ کشمیر پہ بھی کوئی ٹھوس و کارآمد گفتگو دیکھنے و سننے میں نہ آئی۔ حنا ربانی کھر نے سیاچن، سرکریک و کشمیر کا ”ذکر محض“ ضرور کیا لیکن ایس ایم کرشنا اس مسئلے پہ مکمل خاموشی اختیار کئے رہے۔ 63 سال گزر جانے کے بعد بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں کو عملی جامہ نہ پہنایا جا سکا۔ اقوام متحدہ کی قرار داد سے مسلسل انحراف کے رویے اور بھارتی ہٹ دھرمی کے سبب پاک بھارت ٹینشن تا حال قائم و دائم ہے۔ بھارت کے ساتھ ہماری بات چیت کے جتنے بھی راﺅنڈز ہو جائیں پاک بھارت کشیدگی مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر ختم نہیں ہونے والی۔ ہمیں یاد رکھنا ہو گا کہ 1947ءمیں جس دو قومی نظریے کی اساس پہ پاکستان معرض وجود میں آیا، اسی دو قومی نظریے کی بنیاد پہ کشمیریوں کی پاکستان میں شمولیت فطری خواہش رہی ہے یہاں تک کہ کشمیریوں نے تشکیل پاکستان کے فوراً بعد ہی پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا تھا۔ یہ بھارت ہی ہے کہ جس کی مکاری و عیاری کے سبب کشمیریوں کے الحاق پاکستان کی خواہش پوری نہ ہو سکی یہاں تک کہ بھارتی بدنیتی دیکھتے ہوئے کشمیری مسلمانوں نے مسلح جدوجہد کے راستے اپنائے۔ ایس ایم کرشنا کے ساتھ ڈائیلاگ میں نہ جانے پاکستانی ہائی کمان نے صاف صاف یہ کیوں نہ کہا کہ بھارت کشمیر میں دنیا کے ایوان بالا اقوام متحدہ سے کیے گئے وعدے کے مطابق رائے شماری کرائے۔ حکومت پاکستان کو مسئلہ کشمیر کو ہمیشہ ”کور ایشو“ کی حیثیت سے ڈیل کرنا چاہیے۔ ذرا سوچئے کہ ہماری حکومت کس بھارت سے ثقافتی تعلقات بڑھانے کی بات کر رہی ہے جو ثقافتی یلغار سے ہماری نسل نو کے ذہنوں کو تسخیر کرنے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ کس بھارت سے دہشت گردی سے نبٹنے کی باتیں کر رہی ہے جو ”کشمیریوں کی جنت نظیر وادیوں میں بذات خود دہشت گردی کی کہانیاں رقم کر رہا ہے“۔ ہم کس بھارت کے حکمرانوں کو دعوت شیراز دیتے رہے ہیں جس کے اٹل بہاری واجپائی جیسے حکمران پاکستان میں آ کر توخوشحال و باوقار پاکستان کی نیک تمنائیں ظاہر کرتے ہیں لیکن گاندھی ایئر پورٹ پہ پہنچتے ہی مجاہدین کشمیر پہ برس پڑتے ہیں۔ کیا ہم بھول گئے کہ آگرہ چوٹی کانفرنس بھی ہوئی لیکن مسئلہ کشمیر کا حل استصواب سے نہ ہو سکا۔ بھارت نے 9/11 کی اوٹ میں امریکی وار آف ٹیرر کی ڈاکٹر ائن سے آزادی کشمیر کی جدوجہد کو متاثر کرنا چاہا اور مجاہدین کے جہاد کشمیر کو دہشت گردی قرار دینا چاہا۔ گرچہ بھارت کا یہ منصوبہ ناکامیاب ہوا لیکن بھارتی مکروہ چہرہ تو بے نقاب ہو گیا یعنی بھارت کی مسئلہ کشمیر پہ بدنیتی کا پردہ تو چاک ہو گیا۔ یہی نہیں بھارت نے تو ایشیاءکے امن کو تباہ کرنے کا جنگی جنون اس وقت دکھایا جب اس نے 12 لاکھ فوج ملک کی سرحدوں پہ مسلط کیے رکھی۔ ایس ایم کرشنا کا حالیہ تین روزہ دورہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے نہایت ہی مایوس کن و ناکام دورہ رہا۔ پاک بھارت وزراءخارجہ کی مشترکہ کانفرنس میں بھی ایس ایم کرشنا کا مسئلہ کشمیر کے حوالے سے رویہ ماضی کے باطنی رویے کا غماز رہا۔ ایس ایم کرشنا کا کہنا ہے کہ بھارتی صدر کے پاکستان دورے کا ابھی فیصلہ نہیں ہوا جبکہ پاکستانی وزیر خارجہ محترمہ کا کہنا ہے کہ وہ نومبر یا دسمبر میں صدر پاکستان کی دعوت پہ پاکستان کے دورے پہ آئیں گے البتہ پاکستانی عوام کو بھارتی دوروں، ویزوں اور تجارتی پروگراموں کی نہیں بلکہ الحاق کشمیر سے تکمیل پاکستان کی ضرورت ہے۔حکومت پاکستان بھارت کے ساتھ کشمیر ایشو پہ جرات مندانہ رویہ اختیار کرے۔