لاہور(شہزادہ خالد) سزائے موت کا قانون ختم کرنے کا مطلب دہشت گردوں، ڈاکوئوں، قاتلوں، ریپ کرنے والوں کو کھلی چھٹی دینا ہے۔ سزائے موت ختم کرنے سے مجرموں کو فری ہینڈ مل جائے گا۔ سزائے موت ختم کرنے کی باتیں دہشت گردوں کے دبائو پر کی جا رہی ہیں۔ بچوں سے زیادتی کے واقعات بھی قوانین پر عملدرآمد نہ کرنے سے بڑھ رہے ہیں۔ ایسے مجرموں کو سر عام پھانسی دینا چاہیئے۔ ان خیالات کا اظہار آئینی و قانونی ماہرین نے نوائے وقت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔سپریم کورٹ بار کے سیکرٹری راجہ جاوید اقبال نے کہا کہ سزائے موت ختم کرنے سے جرائم پیشہ افراد کو کسی قسم کا خوف نہیں ہو گا ، معاشرے کا امن تباہ ہو جائے گا۔ سزا کا تصور اصلاح کرنا اور خوف دلانا ہے۔ جسٹس ریٹائرڈ آفتاب فرخ نے کہا کہ سزائے موت کا فیصلہ حالات و واقعات کے مطابق اور قانون کے مطابق ہونا چاہئے۔ عدالتوں کو بلاخوف فیصلے کرنے چاہئیں۔ صرف میڈیا رپورٹس پر ملزموں کو پھانسی نہیں دینا چاہئے۔ آج کوئی عدالتوں میں گواہی دینے کو تیار نہیں کیونکہ گواہ کو کوئی تحفظ حاصل نہیں۔ سپریم کورٹ کے سینئر وکیل چودھری ولایت نے کہا کہ سزائے موت پر عملدرآمد معطل یا اس میں تاخیر نہیں ہونی چاہئے۔ لوگوں کو انصاف نہیں مل رہا۔ معروف قانون دان ایس ایم ظفر نے کہا کہ سزائے موت پر عملدرآمد سے جرائم میں کمی آتی ہے۔ اگر مجرم فوری پکڑ کر تفتیش کا عمل بروقت مکمل کر لیا جائے تو معاشرے میں انصاف کا بول بالا ہو گا۔ ترقی یافتہ ممالک میں تفتیش کا نظام بہتر کیا گیا۔ ہمارے ہاں تفتیش کا نظام بہت کمزور ہے اس لئے اصل مجرم چھوٹ جاتے ہیں اور بے گناہ دھر لئے جاتے ہیں۔آج کل جج سنتے کم سوالات زیادہ کرتے ہیں جس سے وہ اینکر پرسن لگتے ہیں۔ سینئر وکیل سید رئیس الدین نے کہا کہ سزائے موت پر عملدرآمد ضروری ہے ہمارے جیسے معاشرے میں تو انتہائی ضروری ہے۔ ہمارے پاس پہلے بھی کمزور کے لئے قانون تھا اور آج بھی کمزور کے لئے ہے۔ امیروں کو کوئی سزا نہیں ملتی۔ قتل کے بعد مدعی اور گواہوں کی جان کو بھی خطرہ ہوتا ہے۔ ندیم بٹ ایڈووکیٹ ہائی کورٹ نے کہا کہ سزائے موت اللہ کا حکم ہے۔ بے گناہ کو سزا نہیں ہونی چاہئے۔لاہور بار کے سیکرٹری کامران مغل نے کہا کہ سزائے موت پر عملدرآمد بے حد ضروری ہے سزائے موت ختم کرنے سے دہشت گردوں کے حوصلے بڑھ جائیں گے۔ مسلم لیگ ن لائرز فورم کے عہدیدار مشفق احمد خان ایڈووکیٹ اور عارف ملہی ایڈووکیٹ نے مشترکہ بیان میں کہا کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7A کے تحت جرم میں صلح نامہ نہیں ہو سکتا اور مدعی کو بھی مجرم کو معاف کرنے کا اختیار نہیں۔