اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) مسلم لیگ (ن) کے دور اقتدار کے ابتدائی 100 ایام میں معاشی سیکٹر میں مثبت اور منفی دونوں طرح کی بعض چیزیں نمایاں طورپر رونما ہوئی ہیں۔ توانائی کے سیکٹر میں سرکلر ڈیٹ ادا کر دیا گیا تاہم رمضان المبارک کے بعد سے بجلی کی لوڈشیڈنگ میں کوئی نمایاں بہتری نہیں آ سکی۔ آئی ایم ایف کے پروگرام میں جانے کا درست فیصلہ کیا گیا تاہم سہ سالہ پروگرام جائزہ سے یہ بات آسانی سے کہی جا سکتی ہے مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے مشکل راستہ چنا ہے اور پروگرام کی کامیابی سے ہمکنار ہونے کیلئے جس سیاسی عزم کی ضرورت ہوتی ہے اسکا پاکستان جیسے ملک میں تواتر سے عملی مظاہرہ ایک سوالیہ نشان ہے‘ افراط زر ایک بڑے مسئلے کے طورپر نمایاں ہو گیا ہے۔ سٹیٹ بنک کی طرف سے مانیٹری پالیسی کے اعلان میں بیس پوائنٹ میں اضافہ اگرچہ کاروباری طبقہ کے لئے حیران کن تھا تاہم اس فیصلے کے پس منظر میں افراط زر کا بڑھتا ہوا رجحان ہے۔ حکومت کے معاشی اقدامات کے ناقدین کہتے ہیں مسلم لیگ (ن) کی حکومت آڈٹ کئے بغیر بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو ان کے کلیم کی بنیاد پر ادائیگی کر رہی ہے اور یہ سقم آئندہ ایک بڑے مسئلے کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔کراچی انرجی پارک سمیت کول اور پون بجلی کے منصوبے اگر عمل کی شکل میں آ جاتے ہیں تو ملک سے بجلی کے بحران میں آئندہ برسوں میں نکلا جا سکے گا۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے گزشتہ 100 دنوں میں اوسط 10 سے 15 بلین روپے کا قرضہ روزانہ کی بنیاد پر لیا جو حکومت کے وژن سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ابتدائی 100 دنوں میں ملک کی ریٹنگ میں بہتری آئی ہے تاہم براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے شعبے میں کوئی خاص پیشرفت نہیں ہو سکی۔100 دنوں میں نجکاری کے حوالے سے کوئی نمایاں پیشرفت نہیں ہوئی۔ مسلم لیگ کی حکومت بعض اہم معاشی اداروں کے سربراہ تعینات نہیں کر سکی۔ ایس ای سی پی‘ مسابقت کمشن کے مستقل سربراہ نہیں‘ وزارت کامرس مکمل وزیر سے خالی ہے۔