تجربہ اور مشاہدہ بتاتا ہے کہ کسی خاندان یا محلے میں خوشی کی کوئی تقریب ہو رہی ہو اور کسی فوتگی یا آفت کی آمد کی اطلاع آ جائے تو خوشی کی تقریب کے میزبان اخلاقاً اپنے فنکشن کو ملتوی یا بہت ہی سادہ کر دیتے ہیں۔کوئی بے حس و بے ضمیر انسان ہی ہوگا جو اردگرد آنے والی آفت اور مصیبت سے بے نیاز رہتے ہوئے خوشیوں کی تقریب جاری رکھتا ہو گا ۔
کاش اسلام آباد میں میلہ لگانے والے لیڈروں اور انسانوں کے اندر موجود انسان اور انسانیت کروٹ لے کر جاگ جائیں اور وہ اپنے میلوں ٹھیلوں کوسمیٹ کر دکھی لوگوں کے دکھ گھٹانے میں اپنا انسانی رول ادا کرنے لگیں۔ تقریباً دس لاکھ ہمارے بھائی KPKکی سڑکوں پر کھلے آسمان تلے ہماری راہ تک رہے ہیں اور امداد کے منتظر ہیں ۔ حالیہ سیلاب کی تباہ کاریاں کسی سے پوشیدہ نہیں بے گھر ہونے والے خاندان ہم پاکستانیوں کی توجہ کے مستحق ہیں پاکستانی معیشت کمزور ہونے کو ہے دوسری طرف عمران خان اور طاہر القادری کی بے حسی کی انتہا ہے کہ وہ قومی ذمہ داریاں بنانے کی بجائے جشن منا رہے ہیں ہل گلہ کر رہے ہیں پاکستانیوں کو ڈسٹرب کر رہے ہیں پاکستان کی چولیں ہلا رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ شرم جشن منانے والوں ہی کو نہیں حکمرانوں کو بھی آنی چاہئے جو گزشتہ ایک ماہ سے پنجاب خصوصاً اسلام آباد میں اپنی رٹ کھو چکے ہوئے ہیں اور غلطی پر غلطی کر کے حالات کنٹرول کرنے میں نا کام ہیں۔ پاکستان کا دارالحکومت ’’ خلفشار‘‘ بن چکا ہوا ہے۔ سارے کا سارا شہر مفلوج ہو کر رہ چکا ہے۔ دفاتر میں کام نہیں ہو رہا تعلیمی ادارے بند پڑے ہیں کاروبار معطل ہو کر رہ گیا ہوا ہے۔ پاکستان کی سکیورٹی فورسز روزانہ قٹ رہی ہیں۔ آج اسلام آباد میں جو طوفان بد تمیزی بپا ہو رہا ہے تحقیق کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ اس سب کچھ کا ذمہ دار بر سر اقتدار ٹولہ ہے جو اپنی حماقتوں اور نادانیوں کے باعث اپنے ہی دارالحکومت کی سڑکوں پر ذلیل و رسوا ہو رہا ہے۔ صورتحال دن بدن سنگین ہوتی جا رہی ہے ۔ سر عام پارلیمنٹ کا گھیرائو کیا جا رہا ہے۔ PTVپر قبضہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنایا جا رہا ہے پیٹا جا رہا ہے پولیس اہلکاروں کی ٹانگیں توڑنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ طاہر القادری حکمرانوں کی بوٹیاں کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں سکیورٹی فورسز بے بس نظر آ رہی ہیں۔ رات کو دونوں دھرنوں میں میلے اورجشن کا سماں ہوتا ہے اس دوران حکمران چھپے یا سوئے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ علامہ اور عمران سر عام قانون کو للکار رہے ہوتے ہیں۔ صاف محسوس کیا جا سکتا ہے کہ دھرنوں کی قیادت حکمرانوں کو بلیک میل کر رہی ہے ۔ہو سکتا ہے کہ یہ سچ ہو کہ دھرنوں کی قیادت مزید لاشیں چاہتی ہے۔یہ کون لوگ ہیں جو ایک ماہ سے دھرنوں کو سجا رہے ہیں یقیناً ہمارے ہی بھائی ہیں مسلسل ایک ماہ سے انکے جمے رہنے پر کئی کہانیاں مارکیٹ میں آ چکی ہیں۔ ابھی دو روز پہلے ہی عارفوالہ کی چند لڑکیوں اور لڑکوں کا بیان منظر عام پر آیا ہے کہ انہیں فی کس دس ہزار روپے دیکر تین دنوں کے لئے دھرنوں میں لایا گیا تھا۔ دونوں دھرنوں پر پیسہ پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے ۔آج مجھے نا قابل بیان دکھ ہو رہا ہے کہ ایک طرف پاک فوج وطن کی سلامتی کے دشمنوں سے بر سر پیکار ہے لاکھوں مہاجرین ہماری توجہ کا انتظار کر رہے ہیں سینکڑوں لوگ سیلاب میں بہہ رہے ہیں اور دھرنوں کی قیادتیں ہر آفت سے بے نیاز اپنے حال میں مگن ہیں۔
پاکستانیو! ہوش کے ناخن لو
Sep 16, 2014