بیچاری جمہوریت

Sep 16, 2014

ڈاکٹر علی اکبر الازہری

جمہوریت اور بادشاہت میں بنیادی فرق یہ ہے کہ جمہوریت میں عوام کی رائے اور عوام کے حقوق کا احترام کیا جاتا ہے۔ عوام آزادانہ طور پر حق رائے دہی کے ذریعے مخصوص مدت کیلئے حکمران کا انتخاب کرتے ہیں۔ اسکے برعکس بادشاہت یہ ہے کہ نظام حکمرانی اور جملہ ریاستی ادارے بادشاہ سلامت کے حکم سے بنتے اور چلتے ہیں۔ بادشاہ زیرک اور عادل ہو تو نظام سلطنت صحیح چلتا ہے ورنہ لوٹ مار اور افراتفری کا ماحول رہتا ہے‘ اسی لئے کہا جاتا ہے بادشاہ اچھا ہوسکتا ہے مگر بادشاہت (بطور نظام ریاست) کبھی اچھی نہیں ہوتی۔
رسول اکرم کے انسانیت پر بے شمار احسانات کے ساتھ ایک احسان عظیم یہ بھی ہے کہ آپ نے دنیا کو نیا سیاسی نظام دیا جو قیصرو کسریٰ کی عالمی طاقتوں کے نظام ریاست و سیاست سے قطعاً مختلف تھا۔ یہ شورائی جمہوریت کا نظام تھا جس کی اساس پر پہلی ریاستی عمارت ریاست مدینہ کی بنیاد رکھی گئی۔ مصطفوی انقلاب ہرگز خونیں انقلاب نہیں تھا جیسا کہ بعض غیر مسلم مفکرین نے تاریخ کی اس اجلی حقیقت کو تعصب کے پردوں میں بندکرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ مصطفوی انقلاب کا پہلا پیغام ”اقرائ“ تھا یعنی علم و شعور اور دانش و حکمت کی دعوت۔ علم و دانش ہی تو انسان کی امتیازی شان ہے اسی سے اسکے مقام و مرتبے کا تعین ہوتا ہے۔ پیغمبر انسایت کادوسرا احسان احترام انسانیت تھا۔ مغرب نے پندرہ سوسال بعد ویانا کنونشن میں جن انسانی حقوق کا چارٹر پیش کیا، ہمارے عظیم پیغمبر نے اس سے کہیں اعلیٰ پائے کے اصول، ریاست مدینہ میں شہریوں کو عملاً عطا کردیئے تھے۔
چونکہ اسلام قول سے پہلے عمل کا پابند ہے اس لئے 9 سال آپ نے بطور حکمران جن سنہری اصولوں پر ریاست کو چلایا ان کا اعلان خطبہ حجة الوداع میں فرمایا۔ آپ نے حقوق انسانی اور جمہوریت کے جن شعبوں کا تذکرہ اس تاریخی خطبے میں فرمایا مغرب آج بھی اس سے کوسوں دور ہے۔ آپ نے عورتوں،غلاموں اور بچوں کے حقوق گنوائے اور فرمایا تم سب حضرت آدم کی اولاد ہو اور آدم کو مٹی سے پیدا کیا گیا تھا۔ لہذا رنگ و نسل اور مال و دولت پر طبقات کی اونچ نیچ کا اسلام میں کوئی تصور نہیں۔
رہے یہ غلام جن کی خریدو فروخت ہوتی ہے تمہارے اموال پر ان سب کا بنیادی حق ہے جو تم پہنو ان کو پہناﺅ جو تم کھاﺅ ان کو کھلاﺅ۔ چنانچہ انہی انسانیت نواز سنہری اصولوں کے تحت خلافت راشدہ کا نظام چلتا رہا اور چند سال بعد ہی وہ دن آگیا جب سیدنا عمرؓ نے اعلان کیا کہ اسلامی سلطنت میں رہنے والے ہر فردکے حقوق ہمارے ذمے ہیں حتیٰ کہ دریائے فرات کے کنارے اگر کوئی جانور بھی بھوکا مرے گا تو اسکی ذمہ داری قیامت کے دن عمر کے ذمہ ہوگی۔ یہ تھی وہ جمہوریت اور نظامِ ریاستِ نبوی جس میں تین براعظموں پر پھیلی ہوئی سلطنت کا حکمران خود کو لوگوں کے سامنے پیش کررہا تھا۔
ایک آج کی جمہوریت ہے جس کے تقدس پر دن رات قصیدے پڑھے جارہے ہیں۔ کہنے کو تو یہ جمہوریت ہے مگر ایسی جمہوریت ہے جہاں فی الحقیقت حکمران خاندان باری باری تخت سلطنت پر براجمان ہوتے ہیں۔ وہی شاہی اخراجات، شاہی طمطراق، شاہی پروٹوکول اور شاہی مزاج۔ کسی کو ان شاہی مزاج حکمرانوں سے اختلاف کا حق نہیں۔ انکی گردنوں میں وہی سریے انکے رویوں سے اسی طرح کی فرعونیت اور انکے قول و فعل میں وہی پرویزی حیلے۔
ہمارے ملک میں گذشتہ 67 سال سے عوامی اور عسکری حکمران آتے رہے اور ہر دو گروہوں نے عوام کی خدمت کم اور اپنے خاندانوں کی پرورش زیادہ کی۔ سندھ کا بھٹوخاندان ہو یا پنجاب کا شریف خاندان، KPK کے ولی خان ہوں یا بلوچستان کے محمود اچکزئی یہ سب اپنی اپنی جگہ بادشاہ سلامت ہیں۔ جمہوریت نے انکے رویوں اور مزاجوں میں کچھ بھی تبدیل نہیں کیا۔ انکی جماعتوں میں کوئی ان سے اختلاف نہیں کرسکتا اور جو جرات کرتا ہے اگلے دن وہ جماعت کا حصہ نہیں ہوتا۔ انکے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والوں کی انکے نزدیک کوئی اہمیت ہے نہ مقام و مرتبہ۔ میں نے یہ تماشا اپنی آنکھوں سے کئی بار دیکھا ہے کہ ن لیگ کے نامی گرامی MPA اور MNA شہباز شریف کے سیکرٹری کے دروازے پر ترلے لے رہے ہوتے ہیں اور سیکرٹری صاحب ان لوگوں کو گھاس ہی نہیں ڈال رہے۔
یہ رویہ انہوں نے خود سے نہیں اپنایا بلکہ اپنے باس سے سیکھا ہے۔ اسی رویے کی طرف اعتزاز احسن نے اشارہ کرتے ہوئے جوائنٹ سیشن میں کہا تھا، ”آفرین ہے عمران خان اور طاہرالقادری کو کہ انکے دھرنوں کی وجہ سے نواز شریف پارلیمنٹ اجلاس میں آتے ہیں اور ممبران پارلیمنٹ سے ہاتھ بھی ملارہے ہیں۔
کہنے کو تو یہ حکومتیں انتخابات کے ذریعے بنتی ہیں مگر جب تین سال قبل ڈاکٹر طاہرالقادری نے انتخابی نظام کی خرابیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے اس نظام انتخابات کیخلاف آواز اٹھائی تو ہر ایک سیاستدان نے ان کو آڑے ہاتھوں لیا حتیٰ کہ سپریم کورٹ میں سابق چیف جسٹس نے بھی تحقیر آمیز لہجے میں انکے اس بنیادی عوامی مطالبے کو مسترد کردیا۔ اب میڈیا پر بچہ بچہ چلا رہا ہے کہ الیکشن 2013ءمیں دھاندلیوں کا ریکارڈ ٹوٹا ہے اور اس ریکارڈ توڑ انتخابی کرپشن کا سہرا آرمی چیف اور عدلیہ کے چیف کے سر ہے۔ جہاں اتنے بڑے قومی اداروں کے سربراہان ہی غیر جمہوری اورجانبدارانہ رویوں کے حامل ہوجائیں تو اس ملک میں بیچاری جمہوریت پر کتنا ظلم نہیں ہورہا ہوگا۔انقلاب مارچ اور آزادی مارچ کے بعد ایک ماہ سے زائد مدت پر پھیلے ہوئے تاریخی دھرنوں نے کم از کم ایک قومی فریضہ تو یہ ادا کردیا ہے کہ انہوں نے جمہوریت اور عوامی حقوق کا معنی لوگوں کو سمجھادیا ہے۔ پارلیمنٹ ہاﺅس میں بیٹھنے والوں کا احترام صرف اس وجہ سے ہے کہ وہ عوامی مینڈیٹ لے کر اس ہاﺅس میں آتے ہیں۔ پارلیمنٹ ہاﺅس کا تقدس بھی اسی لئے ہے کہ وہ ہمارے قومی آئین کے تحفظ کی علامت ہے مگر ایسی پارلیمنٹ اور ایسے پارلیمنٹرین جن کے پروگرام میں عوام کے حقوق کا خیال تک نہ ہو محض اپنی شہرت، ناموری اور حوسِ اقتدار انہیں اس ایوان میں لے آئی ہو وہ اس جمہوریت کے پاسباں کیسے ہوسکتے ہیں جس کا تذکرہ 1973ءکے آئین میں کیا گیا ہے۔ جمہوری ریاست اورحکومت کا پہلا فریضہ تو عوام کی خدمت اور انکے بنیادی حقوق کی پاسداری ہے۔
 آج سیلاب نے پورے پنجاب کو تباہ و برباد کردیا ہے کوئی ان جمہوری حکمرانوں سے پوچھے کہ انہوں نے ان غریب آبادیوں کے تحفظ کیلئے کیا کوشش کی ہے؟ سیلاب تو ہر سال آتا ہے اور ہر سال ہی تباہی کے ریکارڈ قائم کرکے گزرجاتا ہے۔ پھر توانائی کا بحران ہمارے ملکی مسائل میں بنیادی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ جو بجٹ ہم لوگوں کو دکھانے کیلئے دانش سکولوں، پلوں اور میٹرو بسوں پر لگاتے ہیں اس کا ایک حصہ اگر مختلف علاقوں میں پانی ذخیرہ کرنے کیلئے مخصوص کرلیں تو پانی جیسی یہ رحمت ہمارے لئے زحمت نہ ثابت ہو۔ توانائی کا بحران بھی ختم ہوسکتا ہے اور ہر سال اس تباہی کے نتیجے میں ہونیوالے نقصان سے بھی ہم بچ سکتے ہیں۔
 اسلام آباد میں جاری دھرنوں کا کوئی اور فائدہ ہو نہ ہو اتنا ضرور ہوا ہے کہ گھر گھر آئین، دستور، جمہوریت اور عوامی حقوق کا شعور پہنچ چکا ہے۔ شاہراہ دستور پر بیٹھے ہوئے احتجاجی دھرنوں نے عملاً دستور اور آئین کی ان شقوں سے قوم کو آگاہ کردیا ہے جو اب تک انکی نظروں سے اوجھل تھیں۔

مزیدخبریں