قیام پاکستان سے اب تک کی سیلاب کی تباہ کاریاں اور حکمرانوں کی بے تدبیری و غفلت
ڈیلی نیشن کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق آزادی سے لے کر اب تک پاکستان میں 22بار سیلاب آ چکے ہیں۔ ان سے حفاظت کیلئے اب تک 35ارب روپے خرچ کئے جا چکے ہیں جبکہ ملک کو اب تک ان سیلابوں سے 40.55ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ آبی ماہرین کے مطابق اگر 40.55ارب ڈالر کے ان نقصانات کو دیکھا جائے تو اتنی رقم سے 5بڑے آبی ذخائر تعمیر کئے جا سکتے تھے اور لوڈشیڈنگ سے نمٹا جا سکتا تھا‘ غربت میں کمی ہو سکتی تھی۔ ماہرین کے مطابق فیڈرل فلڈ کمیشن (ایف ایف سی) ارسا، محکمہ آبپاشی اور پاکستان انڈس واٹر کمیشن اس صورتحال کے ذمہ دار ہیں۔دریں اثناءجماعة الدعوة پاکستان کے امیر حافظ محمد سعید نے کہا ہے کہ حالیہ تباہ کن سیلاب بھارت کا پاکستان پر آبی حملہ ہے۔ لاکھوں ایکڑ زرعی اراضی تباہ کرکے پاکستان کو معاشی بحران کا شکار کیا جا رہا ہے۔ بھارت کے تعمیر کردہ متنازع ڈیم جنگی ہتھیار کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔ پاکستان خاموشی اختیار کرنے کی بجائے بھارت کی آبی جارحیت کا راستہ روکے۔
قیام پاکستان کے بعد 22 بڑے اور سینکڑوں درمیانے درجے کے سیلاب آچکے ہیں‘جب بھی سیلاب آیا‘ حکمران‘ حکام اور عوام انگڑائی لے کر اٹھے‘ متاثرین کی مدد پر کمربستہ ہوئے۔ متاثرین کو محفوظ مقامات تک پہنچانے کی کوشش کی۔ آئندہ ایسی آفات پر قابو پانے کیلئے حکمت عملی طے کرنے کے اعلانات ہوئے جو پانی اترنے کے ساتھ ہی اپنی اہمیت اور مقاصد کھو گئے۔ سیلاب کی تباہ کاریوں پر قابو پانے کے ذمہ دار محکمے بھی سیلاب سر پر آنے کے بعد ہی خواب غفلت سے جاگتے۔ اپنی کارروائی ڈالتے اور اربوں روپے فنڈز خوردبرد کرکے اگلے سیلاب کا انتظار کرتے ہیں۔ کئی افسر تو سیلاب کے دوران بھی کرپشن سے باز نہیں آتے۔ حکومت پنجاب نے مختلف علاقوں میں امدادی اور میڈیکل کیمپ لگا رکھے ہیں جہاں پر متاثرین کیلئے خوراک، طبی سہولیات کا انتظام کیا گیا ہے جانوروں کیلئے ونڈا اور چارے کا بندوبست کرنے کی بھی ہدایات دے رکھی ہیں مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ مذکورہ امداد متاثرین تک نہیں پہنچ پا رہی ‘کیمپوں میں 90 فیصد دوسروں علاقوں کے غیر متاثرہ افراد قبضہ جمائے بیٹھے ہیں۔ جانوروں کا ونڈا سرکاری اہل کار فروخت کر دیتے ہیں۔وزیراعلیٰ شہباز شریف نے پیرمحل کے امدادی کیمپ میں متاثرین کو راشن کی تقسیم کے دوران بدانتظامی کے واقعہ کا سخت نوٹس لیتے ہوئے اسسٹنٹ کمشنر پیر محل کو معطل کرنے کے احکامات جاری کر دیئے ہیںجبکہ ڈی سی او ٹوبہ ٹیک سنگھ کو فوری طور پر عہدے سے ہٹا دیا ہے۔وزیراعظم نوازشریف گزشتہ روز ملتان گئے تو امداد سے محروم متاثرین نے انکے جانے کے بعد گونوازگو کے نعرے لگائے۔ آخر امداد جا کہا ںرہی ہے؟
یہ تو کرپشن کے معمولی واقعات ہیں‘ بڑی سطح پر کرپشن بندوں کی تعمیر اور دیگر حفاظتی انتظامات کے دوران ہوتی ہے۔ سب سے بڑا ظلم تو یہ ہے کہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا جاتا ۔ 2010ءمیں پنجاب حکومت نے مستقبل میں سیلاب کی تباہی سے بچنے کی تجاویز کیلئے جسٹس منصور کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن قائم کیا لیکن انکی ایک بھی سفارش پر عمل نہیں ہوا۔ حکمرانوں نے شاید 2010ءکے سیلاب کو آخری سیلاب سمجھ کر چپ سادھ لی اور اب 2010ءکے مقابلے میں کہیں زیادہ ہولناک سیلابی تباہی کا سامنا ہے۔ ہم اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا ملبہ دوسرے پر ڈالنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ مرکز اور صوبے میں مختلف پارٹیوں کی حکومت ہو تو ایک دوسرے کو موردالزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ قدرتی آفات پر قابو پانے میں ناکامی کی بات ہو تو محکمے ایک دوسرے کو الزام دیتے ہیں۔ اب سیلاب کو بھارت کی آبی دہشت گردی قرار دیا جاتا ہے۔ بلاشبہ بھارت ہمارا دشمن ہے‘ وہ مشکل گھڑی میں آپ کو بچانے نہیں آئیگا‘ اس کا جہاں تک بس چلے گا‘ پاکستان کی مشکلات میں اضافہ کریگا اور اسکے باوجود بھی ہمارے حکمران اپنے دشمن پر ریشہ خطمی ہیں۔
بھارت اپ سٹریم اور پاکستان ڈاﺅن سٹریم پر ہے۔ اپ اور ڈاﺅن سٹریم کے اپنے اپنے فائدے ہیں۔ بھارت اس سے فائدہ اٹھا رہا ہے جبکہ ہم ڈاﺅن سٹریم سے فائدہ اٹھانے سے قاصر رہے ہیں۔ ہم 67 سال میں تربیلا اور منگلا ڈیم بنا کر ڈینگیں مارتے ہیں جبکہ بھارت میں ایسے سینکڑوں ڈیم ہیں اور اسکے دیگر آبی دخائر کی تعداد پانچ ہزار سے زائد ہے۔ ایک کالاباغ ڈیم تعمیر ہو چکا ہوتا تو آج طوفان نوح بن کر انسانوں اور جانوروں کو موت کے منہ میں دھکیلتااور فصلوں کو تباہ کرتا ہوا پانی اس میں سما کر وطن عزیز کیلئے رحمت بنتا۔ کالاباغ ڈیم تو سیاسی ایشو بن گیا‘ باقی ڈیموں کی تعمیر کے حوالے سے بھی پاکستانی حکمرانوں نے کونسے تیر مارلئے۔ بھاشا ڈیم کی تعمیر کے کئی دہائیوں سے چرچے ہیں‘ اسکی تعمیر اسکے تین افتتاحوں کے بعد بھی ایک انچ کا سفر طے نہیں کر سکی۔ آج کے حکمران اسکے افتتاح کی چوتھی تختی لگانے کی تیاری کررے ہیں۔
بھارت نے اپ سٹریم ہونے کا فائدہ اپنے ڈیموں میں پانی جمع کرکے اٹھایا۔ پانی سرپلس ہونے کی صورت میں وہ پاکستان کی طرف اپنے ذخائر کے گیٹ کھول کر سیلاب کی شدت میں اضافہ کر دیتا ہے جو اسکی پاکستان سے دشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس نے مقبوضہ کشمیر میں 33 دریا باہم مربوط کر رکھے ہیں‘ سب میں ایک وقت میں یکساں طغیانی نہیں ہوتی وہ کم بہاﺅ کے دریاﺅں میں پانی چھوڑ کر پاکستان کو سیلاب میں ڈوبنے سے بچا سکتا ہے لیکن وہ اس ملک پر رحم کیوں کریگا‘ جس کا وجود ہی اس کیلئے ناقابل برداشت ہے۔ ہم اپنے ڈاﺅن سٹریم ہونے کا بھرپور فائدہ ڈیموں کے سلسلے کی تعمیرات سے اٹھا سکتے ہیں۔ بھارت کے بس میں ہوتا تو وہ ضرورت کے وقت پاکستان میں پانی کے ایک قطرے کو بھی داخل نہ ہونے دیتا لیکن وہ قدرت کے سامنے بے بس ہے۔ اوپر سے پانی نے نیچے کی طرف آنا ہوتا ہے۔ وہ تو ہرصورت آئیگا اور آتا بھی ہے۔ پاکستان میں ڈیم بنے ہوں تو برسات میں ان کو لبالب بھرا جا سکتا ہے۔ جو سارا سال آبپاشی کے کام آئے اور بنجر زمینیں سونا اگلنے لگیں اور ہم سیلاب کی تباہی سے بھی محفوظ رہ سکیں گے۔ اگر ہمارے سیاست دان اس پر آمادہ ہوں تو قوم سیلابوں کے نقصان سے محفوظ رہ سکتی ہے۔ اس نقصان کا تخمینہ 45 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ انسانی جانیں الگ سے ضائع ہو جاتی ہیں۔ آج کم از کم کالاباغ ڈیم کی تعمیر کی طرف آسانی سے پیشرفت ہو سکتی ہے۔ جائنٹ سیشن جاری ہے‘ جس میں دھرنے والوں کی ملامت کی جاتی اور جمہوریت کا راگ الاپا جاتا ہے۔ جمہور کیلئے بھی پارلیمنٹیرین کو سوچنا چاہیے سیلاب متاثرین کے ساتھ صرف اظہار یکجہتی سے سیلاب ٹل سکتے ہیں نہ سیلابوں کی تباہی کو روکا جا سکتا ہے۔ آج سیلاب کی تباہی نے شاید کالاباغ ڈیم کے مخالفین کے ضمیر کو بھی جھنجوڑا ہو۔ حکومت اسی سیشن میں کالاباغ ڈیم پر زیادہ سے زیادہ اتفاق رائے حاصل کرنے کی کوشش کرے۔