سیلاب تباہ کاریاں اور ناکامی حکومتی اقدامات

شاہ نواز تارڑ
ناگہانی آفات کے بارے میں پیش گوئی ممکن نہیں ہے ہنگامی حالات کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے البتہ بروقت اقدامات‘ مناسب حکمت عملی اور بہتر منصوبہ بندی سے نہ صرف نقصانات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ بلکہ معمولات کی جلد بحالی کو بھی ممکن بنایا جا سکتا ہے۔
ماضی کے بعض ایسے حوادث سے سبق حاصل کر کے کمزوریوں کو دور کیا جا سکتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے وطن عزیز میں پالیسی سازوں نے کبھی حکمت عملی اور منصوبہ بندی سے مسائل حل کرنے کی کوشش نہیں۔ جس کے نتائج اکثر و بیشتر ناگہانی آفات سے بھاری جانی مالی نقصان کی صورت بھگتنا پڑتے ہیں۔ جیسا حالیہ شدید بارشوں اور سیلاب کے باعث ہوا۔
پاکستان میں ہر سال شدید بارشوں اور سیلاب سے کوئی نہ کوئی علاقہ ضرور متاثر ہوتا ہے۔ پچھلے سال بھی پوری مغربی پٹی شدید سیلاب کی لپیٹ میں رہی اب کے برس تو سیلاب نے ماضی کے سارے ریکارڈ توڑ دئیے بپھری موجوں نے بلند و بالا عمارتوں کو تہہ و بالا کر دیا۔ بستیوں‘ دیہات اور شہروں میں آبادیوں کے نشان معدوم ہو گئے۔
بے رحم موجیں کتنے لعل ڈبو گئیں‘ کتنی عمارتوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے گئیں کتنا مالی نقصان ہوا اس کا مکمل تخمینہ تو شاید نہ لگایا جائے تاہم اتنا ضرور ہے کہ صدقات و خیرات کرنے والے دو وقت کی روٹی کے لئے محتاج ہو گئے۔ کاشتکاری‘ ڈیریز اور لائیو سٹاک سمیت متعدد اقسام کا کاروبار رکھنے والے ہاتھ پھیلائے ہوئے ہیں۔ سیلاب کے باعث کئی علاقوں میں مونجی کی تیار فصل اور بعض مقامات پر تیاری کے آخری مراحل میں کھڑی فصلیں برباد ہو گئیں جانوروں کے لئے خشک چارہ بچا ہے نہ سبز‘ خدشہ ہے کہ سیلابی علاقوں میں ربیع کی فصلیں بھی کاشت نہیںہو سکیں گی جس سے غلے کی قلت پیدا ہو گئی چارہ نہ ہونے سے ایک طرف دودھ اور گوشت کی پیداوار متاثر ہو گی دوسری جانب زراعت‘ ڈیریز اور لائیو سٹاک کا کاروبار متاثر ہونے سے بیروزگاری اور قحط کا بھی سیلاب آئے گا۔کیونکہ ابھی تک تو سیلاب تھمنے کا نام نہیں لے رہابپھری موجیں ویران و آباد علاقوں کے فرق مٹائے جا رہی ہیں۔ گویا کہ
 کوئی غم ہے میری خوشیوں پہ ہے نظر جس کی
کوئی دریا میرے شہروں کے پتے پوچھتا ہے
 اگر حکومت قبل از وقت منصوبہ بندی کر لیتی تو سیلاب سے نقصان کو کم کیا جا سکتا تھا لیکن حکمران صرف ڈیم بنانے کی باتیں کر کے جان چھڑا لیتے ہیں کہ یہ منصوبے اگر ماضی میں مکمل کر لئے جاتے تو اتنا نقصان نہ ہوتا۔ حکومت کو ہر سال جس قدر نقصان اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،بیانات میں لکیر پیٹنے کی بجائے اگر یہ عملی اقدامات کرے تو اس بھاری نقصان اور خفت سے نجات مل سکتی ہے ۔ سرکاری محکموںکے لئے ضروری تھا کہ برساتی نالوں کی بروقت صفائی کی جاتی ، نہروں کے پشتوں کو مضبوط کیا جاتا، سیلاب کا روپ دھارنے والے ندی نالوں‘ دریاﺅں اور نہروں کی آس پاس آبادیوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا جاتا ۔ اگر مال مویشیوں اور چارے کی منتقلی بھی محفوظ مقامات پر حکومتی تعاون سے ہو جاتی تو جانی و مالی نقصان کو کم کیا جا سکتا تھا۔
اب بھی حکومت کو چاہئے کہ تمام تر توجہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں زندگی معمولات پر لانے کے لئے مرکوز کر دی جائے۔ زراعت‘ ڈیری اور لائیو سٹاک کے لئے بلاسود اور فوری قرضے دئیے جائیں اور ان کی اقساط میںو صولی بھی 3,2 سال بعد شروع کی جائے۔ شہریوں کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جائے۔ تعلیم اور صحت کی سہولتوں کی فرہمی زبانی کا کلامی نہیں‘ عملی طور پر یقینی بنائی جائے۔ مکانات کی تعمیر کے لئے حکومت معاونت کرے اشیاءخورد و نوش کی فراہمی افراد خانہ کی تعداد اور ضرورت کے مطابق یقینی بنائی جائے۔ متاثرین سیلاب کی بحالی کے تمام مراحل پاک فوج کی زیر نگرانی مکمل کئے جائیں ۔
امدادی سامان بھی پاک فوج ہی متاثرین تک پہنچائے۔ متاثرین سیلاب کی مکمل بحالی تک روٹی‘ کپڑا‘ مکان تعلیم ‘ صحت سمیت تمام بنیادی ضروریات کا بندوبست کر دیا جائے۔ تاکہ جو سیلاب سے بچ گئے ہیں۔ وہ دو وقت کی روٹی کے لئے کسی ایسی بڑی ”آزمائش “ میں نہ پھنس جائیں کہ
دیکھا ہے میں نے شہر میں کوڑے کے ڈھیر پر
دو بچے لڑ رہے تھے فقط اک بیرپر
فصلوں کو کاٹتے ٹوٹیں کچھ چوڑیاں
کچھ بک گئیں فقط گندمس کے سیرپر

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...