پاکستان کے بارے میں ابوالکلام آزاد کی تمام پیشگوئیاں غلط ثابت ہوئیں: کتاب میں انکشاف

لاہور (پ ر) قیام پاکستان کو ناممکن بنانے کے لئے مولانا ابوالکلام آزاد نے آخری انگریز وائسرائے ہند لارڈ مونٹ بیٹن کو تجویز دی کہ اگر وہ تقسیم بنگال کا اعلان کردے تو بنگالی مسلمان مسلم لیگ کا ساتھ چھوڑ دیں گے اور پاکستان وجود میں نہیں آسکے گا۔ لیکن انگریز حکمرانوں اور ہندو کانگریس کے تقسیم بنگال پر اٹل رہنے کے باوجود بنگالی مسلمانوں نے مسلم لیگ کا ساتھ نہ چھوڑا اور آدھے بنگال کو ہی پاکستان کا حصہ بنانے کے حق میں وٹ دے دیا۔ یوں مولانا ابوالکلام آزاد کی یہ پیش گوئی بھی حرف بہ حر ف غلط ثابت ہوئی۔ بنگال ہی نہیں پاکستان کے بارے میں مولانا آزاد کی ہر پیش گوئی کا جواب مصنف منیر احمد منیر کی تازہ تصنیف ”مولانا ابوالکلام آزاد اور پاکستان.... ہر پیش گوئی حرف بہ حرف غلط“ میں تفصیل سے دیا گیا ہے۔ 1946ءمیں پاکستان کے متعلق مولانا آزاد کی پیش گوئیوں پر محیط آغا شورش کاشمیری نے جو انٹرویو کیا تھا وہ حال ہی میں پاکستان کے ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خاں نے پانچ اقساط میں دوبارہ شائع کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ مولانا ابولکلام آزاد کی پاکستان کے بارے میں ہر پیش گوئی حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی ہے۔ تقریباً تین سو صفحات اور نایاب و تاریخی تصاویر پر مبنی تصنیف ”مولانا ابوالکلام آزاد اور پاکستان.... ہر پیش گوئی حرف بہ حرف غلط“ میں مصنف منیر احمد منیر نے مولانا کی پیش گوئیوں کا تاریخی حوالوں، شواہد اور ریکارڈ کے ذریعے تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے ہر پیش گوئی کو غلط قرار دیا ہے۔ مولانا آزاد نے اس انٹرویو میں یہ پیش گوئی بھی کی تھی کہ بنگالی بیرونی قیادت قبول نہیں کرتے اسی لئے مسٹر اے کے فضل الحق نے قائداعظم کے خلاف بغاوت کردی تھی۔ مصنف منیر احمد منیر نے تاریخی حوالوں سے اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مسٹر اے کے فضل الحق نے قائداعظم کے خلاف کوئی بغاوت نہیں کی تھی۔ ان کی طرف سے پارٹی ڈسپلن کی مسلسل اور سنگین خلاف ورزیوں پر آل انڈیا مسلم لیگ کے آئین کی رو سے صدر مسلم لیگ قائداعظم نے انضباطی کارروائی کی۔ مولانا آزاد نے اس انٹرویو میں یہ بھی دعویٰ کیا کہ مسٹر حسین شہید سہروردی بھی مسٹر جناح سے چنداں خوش نہیں۔ مصنف منیر احمد منیر نے تاریخی حوالوں سے ثابت کیا ہے کہ قائداعظم سہروردی پر بہت اعتماد کرتے تھے اور سہروردی بھی قائداعظم کی رہنمائی کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھاتے تھے۔ مولانا آزاد کی اس دلیل کہ بنگالی باہر کی قیادت کو مسترد کردیتے ہیں، کے جواب میں مصنف نے تاریخی حوالوں کی تفصیل دیتے ہوئے لکھا ہے کہ بنگال کے پہلے غیر بنگالی مگر مسلمان حکمران سلطان بختیار خلجی سے لے کر جنرل ایوب خاں تک بنگالیوں نے کسی بھی حکمران کو اس لئے مسترد نہیں کیا کہ وہ غیر بنگالی تھا۔ مولانا آزاد نے اپنے اس انٹرویو میں یہ پیش گوئی بھی کی تھی کہ پاکستان بن گیا تو نااہل سیاستدانوں کی وجہ سے یہاں بھی فوج حکمران رہے گی جس طرح کہ باقی کے اسلامی ملکوں میں ہے۔ ”مولانا آزاد کی ہر پیش گوئی حرف بہ حرف غلط“ کے تحت مصنف نے مولانا کی اس پیش گوئی کے ردمیں لکھا ہے کہ 1946ءمیں جب مولانا نے یہ انٹرویو دیا صرف چار مسلمان ملک آزاد تھے۔ سعودی عرب، ایران اور افغانستان میں بادشاہت تھی اور ترکی میں جمہوریت۔ باقی سارا عالم اسلام برطانیہ، فرانس، ہالینڈ وغیرہ کی غلامی میں تھا۔ کسی بھی اسلامی مملکت میں فوج کی حکمرانی نہ تھی۔ مولانا نے پیش گوئیوں سے اٹااٹ اپنے اس انٹرویو میں یہ دعویٰ بھی کیا کہ پارسی اور یہودی مذاہب کی طرح ہندو بھی موروثی مذہب ہے۔ مصنف نے اس کے جواب میں لکھا ہے کہ صرف پارسی اور یہودی موروثی مذاہب ہیں، ہندو ازم قطعاً موروثی نہیں۔ اگر ہندو موروثی مذہب ہوتا تو ہندو برہمن قیادت کو مسلمانوں کو دوبارہ ہندو بنانے کے لئے شدھی کی تحریک شروع نہ کرنا پڑتی اور نہ گاندھی یہ کہتے کہ مسلمانوں کو یا تو ہندو بنا لیا جائے گا یا غلام۔ مولانا ابوالکلام آزاد کیبنٹ مشن پلان کے زبردست حامی تھے۔ یہ مشن ہندوستان آیا تو مولانا کانگریس کے صدر تھے۔ مولانا کی پیش گوئی تھی کہ ان کے جانشین جواہر لال نہرو کیبنٹ مشن پلان تسلیم کئے رکھیں گے۔ اس لئے مولانا کانگریس کی صدارت سے پنڈت نہرو کے حق میں دستبردار ہوگئے لیکن نہرو جب کانگریس کی کرسی صدارت پر بیٹھ گئے تو انہوں نے کیبنٹ مشن پلان مسترد کردیا۔ یوں مولانا کی یہ پیش گوئی بھی حرف بہ حرف غلط ثابت ہوئی جس کا مولانا کو عمر بھر افسوس رہا۔ مولانا نے یہ پیش گوئی بھی کی جو صوبے ہندوستان سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیں گے وہ بہت جلد ہندوستان میں واپس آجائیں گے۔ مولانا کی یہ پیش گوئی بھی حرف بہ حرف غلط ثابت ہوئی۔ حتیٰ کہ بھارت نے سوویت یونین، امریکہ اور اسرائیل کی بھرپور سیاسی، سفارتی اور عسکری مدد سے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش تو بنا دیا لیکن آج تک بنگلہ دیش نے بھی انڈین یونین کا حصہ بننے کی خواہش نہیں کی۔ مولانا آزاد نے پیش گوئی کی تھی کہ پاکستان غیر ملکی قرضوں کے بوجھ تلے دبا رہے گا۔ اس کے جواب میں مصنف نے لکھا ہے کہ 2012-13ءتک پاکستان کے غیر ملکی قرضے ساٹھ بلین ڈالر تھے جبکہ بھارت کے 390 بلین ڈالر تھے۔ مولانا یہ پیش گوئی بھی کی کہ پاکستان میں اندرونی خلفشار اور صوبائی جھگڑے رہیں گے۔ اس کے جواب میں کتاب مذکور میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان نہیں بلکہ بھارت اپنے اندرونی خلفشار اور صوبائی جھگڑوں کا خوفناک حد تک شکار ہے جس کے 29 صوبوں میں 14 میں علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ مولانا آزاد نے یہ پیش گوئی بھی کی تھی کہ پاکستان میں غیر ملکی کنٹرول رہے گا۔ مصنف منیر احمد منیر نے ریکارڈ اور شواہد سے تقابلی جائزہ لیتے ہوئے عیاں کیا ہے کہ پاکستان کے مقابلے میں بھارت شروع دن سے غیر ملکی اثرات میں گھرا ہوا ہے۔ ”مولانا ابولکلام آزاد اور پاکستان.... ہر پیش گوئی حرف بہ حرف غلط“میں مصنف نے لکھا ہے کہ ایک طرف مولانا آزاد دو قومی نظریے کو پامال بحث قرار دیتے ہیں دوسری طرف جب اسی دو قومی نظریے کی بنیاد پر پاکستان وجود میں آتا ہے تو بقول شورش کاشمیری مولانا آزاد خان عبدالغفار خاں اور صدر مجلس احرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی کو اور ان کی وساطت سے احرار کو مسلم لیگ میں شامل ہونے کا مشورہ دیتے ہیں۔ گاندھی جی کو پتہ چلا تو انہوں نے مولانا آزاد کو بھی مسلم لیگ میں شامل ہونے کا مشورہ دے دیا۔ مولانا آزاد کے انٹرویو نگار شورش کاشمیری کے حوالے سے کتاب مذکور میں اسی کانگریسی روپے کی تفصیل بھی دی گئی جو 45ءاور 46ءکے انتخابات میں مسلم لیگ کا مقابلہ کرنے کے لئے نیشنلسٹ علما میں تقسیم کیا گیا۔ مقصد قیام پاکستان کو ناممکن بنانا تھا۔
پیشگوئیاں

ای پیپر دی نیشن