اسلام آباد (آن لائن) سپریم کورٹ نے غیر قانونی این جی اوز کے خلاف کارروائی اور دیگر حوالوں سے وفاق اور صوبوں کی بجھوائی گئی رپورٹس اکٹھی کر کے عدالت میں پیش کرنے کے لئے سیکرٹری لاء اینڈ جسٹس کمشن کو تین ہفتوں کی مہلت دے دی۔ یہ مہلت منگل کے روز جسٹس امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے دی جبکہ جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر حکومت اپنے کام میں مستعد ہوتی تو معاملات سپریم کورٹ تک نہ آتے۔ یہ پالیسی معاملات ہیں عدالت کیا کرے۔ کیا حکومت نے خود سے کچھ نہیں کرنا کہ ہر کام میں عدالت ہی آرڈر جاری کرے۔ فنڈز کی تفصیلات طلب کرنا ہمارا نہیں حکومتوں کا کام ہے۔ حکومت نے جو کام نہیں کرنا ہوتا اس پر کمیٹی بنا دیتی ہے ۔جسٹس دوست محمد نے کہا کہ یہ ایف آئی اے کے سائبر ونگ کا کام ہے کہ وہ بیرون ملک سے این جی اوز کو بھجوائی جانے والی رقوم کا پتہ چلائے۔ یہ رقوم کس کو کیوں ارسال کی جا رہی ہیں۔ کتنی این جی اوز کے اکائونٹس ہیں اور ان میں پیسہ کہاں کہاں سے آتا ہے۔ اس دوران وفاقی حکومت کی طرف سے ساجد بھٹی جبکہ صوبوں کی طرف سے لاء افسران پیش ہوئے اور انہوں نے رپورٹس عدالت میں پیش کیں۔ جس پر عدالت نے سیکرٹری لاء اینڈ جسٹس کمشن سرور خان کو ہدایت کی کہ وہ ان رپورٹس کو اکٹھا کر کے عدالت میں پیش کریں۔ بلوچستان کی طرف سے بتایا گیا کہ ہم نے این جی اوز کو آڈٹ کرانے کا حکم دیا تھا جنہوں نے آڈٹ کرایا وہ کام کر رہی ہیں اور جنہوں نے انکار کیا ہے ان پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ رزاق اے مرزا نے کہا کہ حکومت پنجاب نے بعض این جی اوز پر پابندی لگا دی ہے۔ ساجد بھٹی نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت اس پر عمل ہو رہا ہے اور پیش رفت بھی ہو رہی ہے۔ اس پر عدالت نے کہا کہ یہ سب کام ہمارے کرنے کے نہیں ہیں حکومتیں اپنا کام کریں۔ نیشنل ایکشن پلان میں این جی اوز کی فنڈنگ کا معاملہ نمبر ایک پر رکھا جانا چاہئے تھا۔ بعدازاں عدالت نے مقدمے کی سماعت 3 ہفتوں کے لئے ملتوی کر دی ہے۔