”میری بار کیوں دیر اتنی کری“

گزشتہ کئی ہفتوں سے نامعلوم ”ذرائع“ کی بے تحاشہ فیاضیوں کی بدولت پاکستان کی جو تصویر ہمارے بہت ہی آزاد اور ہمہ وقت مستعد ٹی وی چینلز کی بدولت دُنیا کے سامنے نظر آرہی ہے، اس کے مطابق پاکستان کے تمام سیاستدان نااہل اور بدعنوان ہیں۔

عمران خان اس ضمن میں مختلف نظر آتے ہیں تو بنیادی طورپر اس لئے کہ کبھی اقتدار میں نہیں رہے۔ کرکٹ کے عالمی شہرت یافتہ کھلاڑی تھے۔ کرشماتی طبیعت کے مالک۔ ان کی ذات سے وابستہ کشش کی وجہ سے کچھ واقعات ایسے ضرور ہوگئے جو جوانی کے خمار میں اکثر لوگوں سے سرزد ہو جایا کرتے ہیں۔
عمران خان نے مگر اپنی اصلاح کی۔ دین کی طرف راغب ہوئے۔ فکرِ اقبال کو سمجھنے کی کوشش کی اور اپنی مقبولیت کو مثبت انداز میں استعمال کرتے ہوئے شوکت خانم جیسا جدید ہسپتال بنا دیا۔ یہاں کینسر جیسے موذی مرض کا علاج ہوتا ہے۔ امیر اور غریب کو یکساں سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔
عمران خان کے فلاحی کام اور اصطلاحی سوچ کو ذہن میں رکھتے ہوئے بہت سے لوگ بڑے خلوص سے یہ سوچتے ہیں کہ اگر انہیں اقتدار مل جائے تو شاید ملک کی تقدیر سنور جائے۔ نیا پاکستان بنانے کے لئے اگرچہ انہیں زیادہ تر ان ہی لوگوں کو اسمبلیوں میں لانا پڑے گا جنہوں نے پرانے پاکستان کو ظلم اور ناانصافی کا مسکن بنا دیا تھا۔
سیاستدانوں کے خلاف پھیلتی نفرت کے اس موسم میں اب تک فرق البتہ ”نااہل“ اور ”بدعنوان“ کے درمیان اُجاگر ہوتا رہا ہے۔ مثال کے طور پر پرویز خٹک اور ان کے وزراءکوئی ہوش ربا تبدیلیاں تو نہ لاپا ئے مگر ”چور لٹیرے“ ہونے کے الزامات سے محفوظ رہے۔ پنجاب کے شہباز شریف ابھی تک گڈگورننس کی یک وتنہا علامت نظر آتے رہے تاہم گزشتہ برس سانحہ ماڈل ٹاﺅن ہوگیا۔ بعدازاں قصور والا واقعہ اور حال ہی میں اٹک اور جہلم میں ڈینگی کے خلاف سپرے کے حوالے سے پھرتیوں کے شاخسانے.... ”لوٹ مار“ کے الزامات سے لیکن ابھی تک محفوظ رہے ہیں۔
وقت مگر اب بدل رہا ہے۔ نندی پور- نندی پور کا ورد میڈیا پر شدت سے جاری نظر آتا ہے۔ اس کے ذکر سے بات پہنچی سولر پارک تک اور بالآخر اب بات یہ چل نکلی ہے کہ شریف برادران موٹروے، میٹرو بس، انڈرپاسز اور سگنل فری سڑکوں جیسے میگا پراجیکٹس کی محبت میں خلقِ خدا کو فائدے پہنچانے کو نہیں بلکہ ان کے ذریعے ”بھاری کمشن“ حاصل کرنے کی لت کی وجہ سے مبتلا ہیں۔ قطر سے LNG کے حصول کے لئے ہوئی سودے بازی بھی محض خفیہ رکھنے کی وجہ سے مشکوک سے مشکوک تر ہوتی جارہی ہے۔
سیاست کا ایک ادنیٰ طالب علم ہوتے ہوئے کئی دنوں سے میں یہ بات دہراتا چلا گیا کہ ایپکس کمیٹی کے آدھا تیتر، آدھا بٹیر دِکھنے والے نظام کے ذریعے کراچی میں کرپشن کے خلاف جو دلوں کو خوش کرنے والی مہم چلائی گئی ہے وہ سکھر بیراج کے دوسرے سرے تک محدود نہیں رہے گی۔ سیلابِ خوش کن حکومت کو ایک دن پنجاب بھی آنا ہوگا۔ خدا بھلا کرے عمران خان کا۔ پیر کی سہ پہر لندن میں بچوں کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کے بعد فریش ہوکر اسلام آباد میں میڈیا کے سامنے نمودار ہوئے تو بے دھڑک مطالبہ کردیا کہ رینجرز اب پنجاب میں بھی اپنے جلوے دکھائیں۔
ایپکس کمیٹی کے بظاہر آدھا تیتر، آدھا بٹیر والے نظام کو پنجاب میں اپنے جلوے دکھانا اس لئے بھی ضروری ہے کہ پاکستان کے تمام شہریوں کو مساویانہ حقوق کی لذت نصیب ہو۔ ٹی وی والے کب تک صرف کراچی میں بلڈنگ اتھارٹی اور ڈاکٹر عاصم کے ہسپتال پر چھاپوں کے مناظر دکھاتے رہےں گے.... اب نئی فوٹیج درکار ہے! کتنا مزا آئے اگر شکر دوپہر ٹی وی کیمروں کے سامنے بکتر بند گاڑیوں سے نقاب پوش افسران اُتریں اور مثال کے طورپر واپڈا ہاﺅس میں گھس جائیں اور اکٹھا کریں ان دستاویزات کو جو نندی پور سے متعلقہ ہیں۔ قائداعظم سولر پارک کے منصوبے کا ہیڈکوارٹر بھی لاہور ہی میں کہیں موجود ہو گا۔ دستاویزات کی تلاش میں ایک چھاپہ اس دفتر کا حق بھی نظر آتا ہے۔
یہ نہ ہوا تو ”دیہی“ اور ”شہری“ سندھ میں رہنے والے ہمارے ہم وطنوں کو گِلہ ہوگا کہ انہیں ”غلام“ اور ”زندہ لاشیں“ گردانتے ہوئے مسلسل ان ہی سیاسی جماعتوں کو ووٹ دینے کے طعنے کیوں سہنا پڑتے ہیں جو کئی بار حکومتوں میں آئے۔ خلقِ خدا کے لئے تو کچھ بھی نہ کرسکے بلکہ جو ادارے انگریز کے زمانے سے تھوڑا بہت کام کررہے تھے انہیں بھی تباہ کرکے رکھ دیا۔ ”غلاموں“ اور زندہ لاشوں“ کے ووٹوں کی طاقت سے مگر حکمرانوں کی اپنی زندگیوں میں آنکھوں کو خیرہ کردینے والی تبدیلیاں نظر آئیں۔ دوبئی آباد اور کراچی برباد ہوگیا۔ پنجاب کے لوگ بھی اپنے تئیں ”میری بار کیوں دیر اتنی کری“ والی فریاد کرنے پرمجبور ہوتے نظر آرہے ہیں۔
بات، قصہ مختصر، چل نکلی ہے۔ اسے دور تلک جانا ہے۔ پنجاب کے بعد باری یقینا اسلام آباد کی آئے گی۔ دو وفاقی وزراءکے نام ”ذرائع“ کی سرپرستی میں جرا¿ت مندی کے ساتھ سچ بولنے والے اینکرز حضرات مسلسل لئے چلے جارہے ہیں۔ جرا¿ت مندوں کو خلقِ خدا Ratings سے نوازتی ہے۔ Ratings سے ملتے ہیں اشتہارات اور ان سے چلتا ہے چینلوں کا کاروبار.... ”ذرائع“ کے لاڈلے اپنے اہداف کو ہتھکڑیاں پہنے لوگوں کے سامنے لانے میں ناکام رہے تو لوگ اُکتا جائیں گے۔
چند ہی روز پہلے میں اپنی ایک بزرگ خاتون کو جو اسلام آباد کے ایک بڑے گھر میں تنہا رہتی ہیں سلام کرنے گیا تھا۔ وہ عصر کے بعد ہاتھ میں ریموٹ تھام کر تخت پر رکھے تکیے سے ٹیک لگاکر چھالیہ کترتی اور ریموٹ کے بٹن دباتی رہتی ہیں۔ اچانک ایک ریٹنگ کے حوالے سے بہت ہی مشہور اینکر کا پروگرام شروع ہوا تو انہوں نے بیزاری سے یہ کہہ کر چینل بدل دیا کہ ”یہ تو ہر وقت تمہاری مشہورکی ہوئی سیاپا فروشی“ کرتا رہتا ہے۔
مجھے ٹی وی پروگرام کرنے کا جو معاوضہ ملتا ہے وہ کالم لکھنے سے بہت زیادہ ہے۔ اسی لئے چینلوں کی رونق برقرار رہنے کی دعائیں مانگتا رہتا ہوں۔ سیلابِ خوش کن حکومت کو اب پنجاب اور اسلام آباد پہنچ ہی جانا چاہئے تاکہ گلشن کا کاروبار چلتا رہے۔ یہ دُعا مانگتے ہوئے مگر اچانک یاد آگیا کہ برادر اسلامی ملک مصر میں ان دنوں کبھی Ratings کو یقینی بنانے والے ٹی وی اینکرز سکرینوں سے بالکل غائب ہیں۔ چند ایک کو تو جیل بھی بھیج دیا گیا ہے۔ خدا کرے ہمارے ہاں ایسا نہ ہو! جرا¿ت مندی کے ساتھ ٹی وی سکرینوں پر پورا سچ بولنے والے پوری استقامت کے ساتھ سچ بولتے اور بلٹ پروف گاڑیوں میں سفر کرتے رہیں!

ای پیپر دی نیشن