ملک میں دہشت گردی کے خلاف پاک فوج اور دیگر سیکورٹی اداروں کی جانب سے ضرب عضب کے بعد نیشنل ایکشن پلان کے تحت کی جانیوالی کاروائیاں بلاشبہ قابل ستائش ہیں اور اُنکی قربانیوں کی بدولت ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں ممکنہ حدتک کمی واقع ہوئی ہے جس کی وجہ سے عوا م کے ذہنوں پر دہشت گردی کا خوف بھی کم ہوا ہے دہشت گردی کی ان کاروائیوں سے نمپٹنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان کے تحت سیکورٹی اداروں اور خصوصاََ پولیس کی کارکردگی بڑھانے کی بھی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے کسی بھی ممکنہ کاروائی کے تدارک اور اسکے لیے ہمہ وقت تیار رہنے کے لیے پولیس کی جانب سے”موک سروس“کا آغاز بھی خوش آئند ہے اس موک سروس کی وجہ سے پولیس کے علاوہ بم ڈسپوزل سکواڈ،سول ڈیفنس،ریسکیو1122،ٹی ایم اے اور محکمہ صحت جیسے اداروں کی ایمرجنسی کارکردگی جانچنے میں بھی مدد ملتی ہے لیکن عید سے دو روز قبل 11ستمبر کو بورے والا کی پولیس انتظامیہ نے پولیس اور دیگر اداروں کی کارکردگی جانچنے کے لیے تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال بورے والا میں”موک سروس“کا اہتمام کیا اس ”موک سروس“سے قبل پولیس کی جانب سے ایس ایچ او تھانہ ماڈل ٹاﺅن اور ہسپتال میں صرف ایم ایس کو اطلاع دی گئی جبکہ اس موک سروس کی میڈیا کوریج کے لیے بھی ایک دو صحافیوں کو اطلاع کر دی پولیس انتظامیہ نے اس ”موک سروس“ کے لیے ٹی ایچ کیو کے ایمرجنسی وارڈ کا انتخاب کیا جہاں ایک شاپر رکھ کر ہسپتال کے ایمرجنسی اور وارڈوں میں موجود مریضوں کو اچانک اطلاع کر دی گئی کہ ہسپتال میں بم موجود ہے اسی قسم کی اطلاع پولیس نے وائریس پیغام پر نشر کر دی جس پر قبل از وقت اطلاع ملنے کی وجہ سے ایس ایچ او تھانہ ماڈل ٹاﺅن بھاری نفری کے ہمراہ ہسپتال پہنچنے اور پھر دیکھنا کیا تھا کہ وہاڑی سے سول ڈیفنس،بم ڈسپوزل سکواڈ،ریسکیو 1122اور ایلیٹ فورس کے جوان بھی ہسپتال پہنچ گئے جنہوں نے آتے ہی ایمر جنسی وارڈ کا گھیراﺅ کر کے مریضوں کو اُنکے ساتھ آنے والوں کو بھی باہر نکل جانے کا کہا جس سے ایمرجنسی وارڈ کے علاوہ گائنی وارڈ،مردانہ و زنانہ،جنرل وارڈوں میں بھی بھگڈر مچ گئی ۔ مریض اورا ُنکے لواحقین ڈرپوں سمیت باہر کی جانب بھاگ کھڑے ہوئے کسی کو یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ انہوں نے اپنی جان بچانے کے لیے کہاں پناہ لینی ہے متعدد مریض ہسپتال سے باہر بھاگ کر ملحقہ کھیتوں میں جا بیٹھے دوسری جانب پولیس کے افسران اور ایس ایچ او تھانہ ماڈل ٹاﺅن پولیس کی اس کامیاب ”موک سروس“ پر میڈیا کو بریفنگ دیتے رہے اور پنجاب پولیس زندہ باد کے نعرے لگاتے رہے ہسپتال میں موجود ڈاکٹرز،پیرا میڈیکل سٹاف اور دیگر عملہ بھی اس ”موک سروس“ کی وجہ سے خوفزدہ دکھائی دیا مریضوں میں پیدا ہونے والا یہ خوف پولیس اور دیگر اداروں کے ہسپتال سے رخصت ہو جانے کے بعد بھی جاری رہا اور ہسپتال سے بھاگ کر باہر جانے والے مریضوں کے لواحقین یہ معلومات حاصل کرتے رہے کہ ہسپتال میں رکھا گیا بم برآمد ہو گیا ہے یا ابھی تک خطرہ ہے خواتین مریض اور معصوم بچے کئی گھنٹے تک خوف کی اس صورتحال سے دوچار رہے پولیس انتظامیہ کی جانب سے ”موک سروس“ کے لیے تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال کا انتخاب سمجھ سے بالاتر تھا اگر پولیس نے ہسپتال میں یہ سروس کرنا تھی تو کم ازکم ہسپتال میں زیر علاج مریضوں اور اُنکے لواحقین کو قبل از وقت آگاہ کیا جاتا تا کہ وہ خوفزدہ ہو کر بستروں سے ڈرپوں سمیت بھاگ کھڑے نہ ہوتے اس سروس سے پیدا ہونے والے خوف ہراس سے کسی کمزور دل مریض کی جان بھی جا سکتی تھی30منٹ تک ہونے والی اس ”موک سروس“ کی وجہ سے ہسپتال کے مین گیٹ کو ایمرجنسی وارڈ تک ہمہ قسم کے داخلہ کے لیے بند کر رکھا تھا بعض لوگ اپنے مریض لے کر ہسپتال کے گیٹ پر اس کھیل تماشے کے ختم ہونے کا انتظار کرتے رہے کیا پولیس اس ”موک سروس“ سے اداروں کی کارکردگی چیک کرنا چاہتی تھی یا وہ ہسپتال میں داخل موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا مریضوں کا حوصلہ چیک کرنا چاہتی تھی اس غیر ذمہ دارانہ سروس کے اہتمام کا اصل ذمہ دار کون ہے اس بات کا پتہ لگایا جانا ضروری ہے اس ”موک سروس“ سے متعلق جب میڈیکل سپرٹنڈنٹ ڈاکٹر رانا محمد اکرم سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ مجھے پولیس کی طرف سے قبل از وقت اطلاع دی گئی تھی لیکن انہوں نے اس اطلاع کو اپنے تک محدود رکھنے کی بھی ہدایت کی تھی جس کی وجہ سے ہم نے ڈاکٹر،عملہ اور ہسپتال میں داخل مریضوں کو بھی اطلاع نہ دی۔
پولیس کی طرف سے کی گئی اس ”موک سروس“کے بعد ڈی ایس پی بورے والا نے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسی مشقوں کا مقصد اداروں اور عوام کو کسی بھی ممکنہ دہشت گردی کے واقعہ سے نمپٹنے کے لیے تیار رکھنا ہوتا ہے اور یہ سروس کسی بھی مقام پر کی جا سکتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭