لیگی شیر اور مظفر وارثی کے میرکارواں … قادری

عمران خان رائیونڈ مارچ کے ارادے سے پسپائی اختیار کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے 3 ستمبر کو راولپنڈی کے عظیم الشان اور انسانوں کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ رائیونڈ جانا ہے یا اسلام آباد اس کا فیصلہ اور اعلان وہ جلد کرینگے۔ اب وہ کہتے ہیں کہ گھروں پر حملہ ہماری روایت نہیں، رائیونڈ مارچ کا حصہ نہیں بنیں گے۔میاں محمد نواز شریف کے جاتی امرا کے گھر کو وزیراعظم ہائوس کا درجہ حاصل ہے۔ یہ گھر رائیونڈ شاہراہ سے کئی کلومیٹر دور ہے، جہاں وزیراعظم ہائوس کی طرح سکیورٹی ہے۔ پی ٹی آئی یا کسی بھی پارٹی کی طرف سے ان گھروں کا گھیرائو ممکن نہیں۔ تحریک انصاف کو جاتی امرا کی مین انٹرنس سے بھی کئی کلومیٹر دور احتجاج ، دھرنا یا مظاہرہ کرنا ہو گا جس سے وزیراعظم ہائوس کو کوئی زد اور زک نہیں پہنچ سکتی تاہم دنیا میں جاتی امرا کے گھیرائو کا تاثر ضرور جائیگا۔
مسلم لیگی رہنما اور ورکر اس پر اشتعال میں ہیں۔ عمران خان پر دھاڑتے ہوئے زبان خشک اور دستی نمٹنے کیلئے بیخودنظر آتے ہیں مصل ’’ڈولے‘‘ ہیں کہ پھڑک پھڑک جاتے ہیں۔ لندن میں یہ شیر عمران خان کے بیٹوں کے گھر پر مظاہرہ کر چکے ہیں مگر الطاف نے پاکستان کے بارے میں جو بے ہودہ گوئی کی اس پر خاموش رہے‘ اسکے گھر کے سامنے مظاہرہ نہیں کیا۔ اب ہر شیر کہہ رہا ہے جاتی امرا کی طرف جانیوالوں کی ٹانگیں توڑ دینگے۔ میلی آنکھ دیکھنے والی آنکھیں پھوڑ دینگے۔ بنی گالہ کا گھیرائو کرینگے۔ کوئی ڈنڈا فورس تیار کر رہا ہے۔ جو کچھ کہا جارہا ہے وہ بلاشبہ قابل عمل ہے۔ ایسا ان لوگوں نے متعدد بار کر کے بھی دکھایا ہے۔ سپریم کورٹ پر حملہ ن لیگ کے اعمال پر ایک نمایاں نشان ہے۔ ماڈل ٹائون حملہ جس میں طاہرالقادری کے دعوے کے مطابق 14 افراد جاں بحق ہوئے‘ بادی النظر میں سانحہ ماڈل ٹائون شاہ سے زیادہ شاہ سے وفاداری کی علامت ہے۔ اب بھگت کون رہا ہے؟ کل جاتی امرا کے باہر بھی ٹانگیں توڑی جا سکتی ہیں، سانحہ ماڈل ٹائون دہرایا جا سکتا ہے۔ ملبہ کس پر گرے گا؟ شریف برادران پر۔ طاہرالقادری سانحہ ماڈل ٹائون کا قصاص مانگ رہے ہیں۔ حالات ہمیشہ کسی کی حمایت یا مخالفت میں نہیں رہتے۔ بھٹو ایسے ہی کیس میں پھانسی لگا دیئے گئے تھے۔ اس کا احساس نواز شریف اور شہباز شریف کو ہونا چاہیے۔ ٹانگیں توڑنے والوں کو آپ سے محبت نہیں آپکے اقتدار اور مفادات سے پیار ہے۔ عمران کے جاتی اُمرا آنے کی وجہ ہی ختم کر دیں۔ ہاتھ صاف ہیں تو پانامہ لیکس کی تحقیقات انکی مرضی کی ہونے دیں، ان کا احتساب بھی ساتھ ہی کر لیں۔ اگر وہ جاتی امرا آتے ہیں تو رکاوٹ نہ ڈالیں۔ اپنے شیروں کو قابو رکھیں جو وزیراعلیٰ اور وزیراعظم پر دل و جاں سے نثار اور فداہونے میں اپنی مثال آپ ہیں۔ وزیراعلیٰ اور وزیراعظم کون ہے اس سے انہیں غرض نہیں۔ کل پرویز الٰہی کے جلسوں میں دھمال ڈالنے والے آج شہباز شریف اور نواز شریف کے مفادات کے محافظ ہیں تو کل یہی لوگ جو بھی اس منصب پر ہو گا اسکے فداکار اور صداکار ہونگے۔ کل ممکنہ طور پر سب عمران یا بلاول کے ساتھی ہونگے اور رائیونڈ کی اینٹ سے اینٹ بجانے نکل آئینگے۔ مشرف نے ’’کو‘‘ کیا تو کتنے لیگی سڑکوں پر نکلے تھے؟ایک بھی نہیں۔ یہ کاغذی شیر اپنے آقائوں پر اپنی جان نچھاور نہیں کرتے اوروں کو قربان کرکے آقائوں کے کھاتے میں ڈال دینے کی پختہ روایت رکھتے ہیں۔قومی اسمبلی میں جہانگیر ترین کی تقریر کے دوران مسلسل ہوٹنگ ہوتی رہی،وزیر اعظم اُٹھ کے گئے توچراغ بجھ گئے۔مجمعے پر سکوت طاری ہوگیا،جہانگیر ترین کے سکون سے اپنی بات مکمل کی۔
طاہرالقادری کبھی شریف خاندان اور شریف فیملی ان پر جان چھڑکتی تھی‘ اب وہ اسی خاندان کے کرتا دھرتائوں کی جان لینے سے کم پر تیار نہیں۔ عمران خان کے ہاتھوں میں ہاتھ دیکر دو مرتبہ جھٹک کر عمران کو مومن بھی نہیں رہنے دیا کیونکہ مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈساجا سکتا۔ انکی مشرف سے بھی نہیں بنی۔ انکی پارٹی کے کبھی وائس چیئرمین رہنے والے محمود عباس بخاری کہتے ہیں کہ 2002ء کے الیکشن سے قبل ڈاکٹر صاحب نے مشرف سے 85 سیٹیں دینے کا پرزور مطالبہ کیا۔ وہ 25 تک دینے پر تیار تھے مگر قادری پائوں پٹختے واپس آگئے اور ایک سیٹ پر اکتفا کرنا پڑا۔ وہ زرداری دور میں لنکا ڈھانے کیلئے کینیڈا سے نازل ہوئے۔ بچ بچا اور مک مکا کے بعد واپس چلے گئے۔ دوسری مرتبہ بھی ایسے مقاصد لیکر آئے۔ ن لیگ کے نادانوں اور کاسہ لیسوں نے ان کونیا محاذ فراہم کردیا۔ اب نظام میں اصلاح کے مقاصد دفن ہو گئے، پور ازور قصاص پر ہے۔ انکے ہاتھ خود کو نمایاں رکھنے کا نیا ہتھیار ہاتھ آگیا۔ شیخ الاسلام کا وسیع حلقہ جس میں لوگ آتے اور چلے جاتے ہیں ان معتقدین اور مریدوں کی تعداد میں کوئی فرق نہیں آتا۔ اب انکے ایک سیکرٹری عامر فرید کوریجہ انہیں چھوڑ گئے۔ قادری کے ایک اور سیکرٹری بھی بدظن نظر آتے ہیں، دیکھیں کب لب کشائی کرتے ہیں۔
طاہر القادری ایک محترم شخصیت ہیں۔ مظفر وارثی صاحب انکے بہت قریب رہے، جتنا وہ ڈاکٹر صاحب کے معمولات سے آگاہ اور گواہ ہیں، اتنے وہ لوگ نہیں ہوسکتے جو عقیدت میں حضرت صاحب کی زیارت کرتے یا ان کا لٹریچر پڑھتے ہیں۔ سرِدست آپ مظفر وارثی مرحوم کی ڈاکٹر صاحب سے قربت کی روداد ملاحظہ فرمایئے جس کا تذکرہ انہوں نے اپنی کتاب’’گئے دنوں کا سراغ‘‘ میں کیا ہے۔
’’سیاسی خمیر رکھنے کے باوجود ادب کی طرح ہم کسی سیاسی جماعت میں بھی شامل نہیں ہوئے، پاکستان عوامی تحریک میں شمولیت ایک حادثہ تھی پانچویں ہارٹ اٹیک کے بعد ہسپتال سے آکر ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق ہم بستر پر تھے۔ قبلہ نے پہلی بار ہم پر کرم فرمایا، ابن سیرین کی کتاب سے تعبیر لی ’’دین کمزور ہے، اس تعبیر نے ہمیں پریشان کردیا۔ ہم نے سمجھا شاید ہم سے کوئی کام لینا چاہتی ہے، تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کی طرف نظر دوڑائی ایک سے ایک بڑی دکان نظر آئی کچھ ہی دن بعد اخبار میں خبر پڑھی طاہر القادری صاحب سیاسی جماعت بنا رہے ہیں جس کے نام، پرچم اور مقاصد کا اعلان 25 مئی کو موچی دروازے کے جلسے میں کرینگے۔ وہ ملک میں مصطفوی انقلاب برپا کرنا چاہتے تھے۔ مصطفوی انقلاب کا پڑھتے ہی ہم بے چین ہوگئے۔ طاہر القادری صاحب سے دو چار جلسوں میں ہماری ملاقات ہوچکی تھی۔ ہزار اختلاف کے باوجود ہماری رائے انکے بارے میں آج بھی یہ ہے کہ ان جیسا مقرر برصغیر میں شاید ہی کوئی ہوں۔ ہم نے انہیں فون کیا۔ جواب ملا میٹنگ میں ہیں۔ ہم نے پیغام چھوڑ دیا، چند ہی لمحوں بعد فون کی گھنٹی بجی طاہر القادری صاحب خود بول رہے تھے۔ وارثی صاحب کیسے یاد کیا۔ ہم نے اخبار کی خبر کی تصدیق چاہی۔ تفصیل پوچھی اور ملاقات کا ارادہ اظاہر کیا۔ نقاہت کے باوجود دوسری صبح ہم انکے دفتر میں تھے۔ ہم نے مصطفوی انقلاب کے سپاہی بننے کا عندیہ دیا تو بڑے خوش ہوئے۔ بولے آپ کو تو اللہ تعالیٰ نے ہمارے پاس بھیجا ہے۔ ہماری نظر تو بہت پہلے سے آپ پر تھی آپ جیسا محب وطن، محب دین شاعر ہماری ضرورت ہے۔ ہم نے کہا ہم ہر طرح آپکے ساتھ ہیں لیکن فی الحال اعلانیہ سیاست میں حصہ نہیں لے سکتے۔ اسٹیٹ بنک میں ملازم ہیں یہ مسئلہ ایک لمحے میں انہوں نے حل کردیا۔ فرمایا نوکری چھوڑ دیجئے۔ آپ جو تنخواہ اس وقت لے رہے ہیں، اس سے زیادہ ہر ماہ آپ کو ادارہ پیش کیا کریگا…بہر کیف ہم انکے دفتر آنے جانے لگے، 25 مئی کا جلسہ برپا ہوا، ہم نے نظم پڑھی، اعلان کردیا گیا مظفر وارثی صاحب نے مصطفوی انقلاب کی خاطر اسٹیٹ بنک سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ یہ پہلا جھٹکا تھا جو ہمیں لگا، زیادہ اسلئے نہ محسوس ہوا کہ مصمم ارادوں نے جکڑا ہوا تھا۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...