مال روڈ ۔ کل کا خوش قسمت آج کا بدقسمت علاقہ

کبھی پنجاب اسمبلی چوک سے سول سیکرٹریٹ تک کا شاہراہ قائداعظم کا علاقہ لاہور کا خوش قسمت ترین علاقہ کہلاتا تھا۔ خوش قسمتی کی ساری علامتیں اس علاقے میں موجود تھیں۔ پھر یوں ہوا کہ جیسے اس علاقے کو کسی کی نظر لگ گئی ہو۔ تجارت، تعلیم و تعلم، حصول صحت کے حوالے سے لوگوں کی پہلی ترجیح کہلانے والے علاقے میں گھٹن بڑھنے لگی۔ لاہور کی ریڑھ کی ہڈی کہلانے والے علاقے میں آمدورفت جامد رہنے لگی تو بظاہر قانون حرکت میں آیا۔ حکومت نے اعلانات کئے۔ ہائیکورٹ نے فیصلے کئے مگر صورتحال ایسی بگڑی کہ پنجاب کے دبنگ وزیراعلیٰ شہباز شریف بے بس نظر آنے لگی۔ لاہور ہائیکورٹ کے واضح اعلانات اور فیصلوں کو نظرانداز کیا جانے لگا۔ دفعہ 144 کا نفاذ مذاق بن کر رہ گیا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ حالات کے بگاڑ میں شاید کچھ ابتدائی حصہ حکومت کے حلیفوں کا بھی تھا۔ جب اپنوں کیلئے قانون میں کسی فیصلے میں نرمی یا چشم پوشی سے کام لیا جائے تو پھر مخالفین پر ہاتھ ڈالنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ گزشتہ دو تین برسوں میں ماضی کے اس خوش قسمت علاقے میں کیا کچھ نہیں ہوا۔ بڑے جلوسوں کے باعث اس علاقے میں کبھی کبھار ’’بند‘‘ کا منظر تو سمجھ میں آتا ہے لیکن اب تو ایک مدت سے ہر دوسرے چوتھے دن چھوٹے چھوٹے ’’مظاہروں‘‘ کیلئے بھی پورا مال روڈ (شاہراہ قائداعظم) پہروں بند ہونے کا سلسلہ چل نکلا ہے۔ چنانچہ کاروبار بند‘ ہسپتالوں میں مریضوں اور ڈاکٹروں کی آمدورفت معطل‘ والدین اپنے سکولوں اور کالجوں کے بچوں کو موٹرسائیکلوں اور گاڑیوں میں بٹھائے گھنٹوں دو گز کا فاصلہ طے کرنے کیلئے کھڑے ہیں۔ عدالتوں میں نہ آنے کا راستہ نہ جانے کا۔ دور دراز سے آنیوالے خود واپس لوٹنے پر مجبور۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ٹریفک پولیس کے اہلکار (اگر کہیں ہو بھی) تو عضو معطل بنے کھڑے نظر آتے ہیں۔ اہل لاہور نے کئی بار دیکھا کہ مسجد شہدا چوک‘ پنجاب اسمبلی چوک یا جی پی او یا سول سیکرٹریٹ کے پاس دس بارہ افراد‘ ایک ٹرالہ اور تین چار بینر اٹھائے نعرے لگاتے سامنے آتے ہیں اور طویل روٹ پر دوسرے کنارے پر ٹریفک اہلکار بیریئر لگا کر سڑک بند کر کے شہریوں کو دائیں بائیں نکال رہے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ چند منٹوں میں شاہراہ قائداعظم اور تمام ملحقہ سڑکوں پر گھڑمس جیسی وہ حالت کہ لوگ قیادت کی دعا مانگنے لگ جاتے ہیں۔ اس سارے عذاب کے پس منظر میں ایک چھوٹی سی خواہش ہوتی ہے کہ اگلے دن کے اخبارات میں یا ہر لمحہ ریٹنگ کی دوڑ میں مصروف الیکٹرانک میڈیا کے کسی چینل پر ’’مظاہرہ‘‘ کرنے والے نام نہاد لیڈروں کی ایک جھلک نمایاں ہو جائے۔ ماضی کا یہ خوش قسمت علاقہ ان دنوں اس لئے بدقسمت بنا ہوا ہے کہ پنجاب بھر سے شہرت کے بھوکے یا اپنے دکھوں کا مداوا چاہنے والے حکومت کو اپنی طرف متوجہ کرنے والے صرف اسی علاقے کو ازم گاہ بنائے ہوئے ہیں۔ مینار پاکستان، کلمہ چوک، مین بلیوارڈ گلبرگ، جیل روڈ، فیروز پور روڈ، فیصل ٹائون چوک، کیولری گرائونڈ اور بہت سے علاقے ہیں جو شاہراہ قائداعظم کی طرح ہیں مگر ان علاقوں کو مظاہرہ گاہ کوئی نہیں بناتا۔ اب حال یہ ہے کہ اس علاقے کے تاجر دوسرے علاقوں میں سرمایہ کاری کرنے لگے ہیں۔ دکانوں کی خریدوفروخت کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ تو ممکن ہے مگر عدالتیں کہاں جائیں۔ میوہسپتال کو کیسے شفٹ کیا جا سکتا ہے۔ گورنمنٹ کالج سمیت تعلیمی ادارے کیسے اس علاقے سے نکالے جا سکتے ہیں۔ اگر یہ ممکن نہیں تو پھر دبنگ وزیراعلیٰ کو اس علاقے میں بھی اپنی رٹ قائم کرنا ہو گی۔ لاہور ہائیکورٹ کے موجودہ چیف جسٹس اپنے ہر شعبے کو جرأت مندی کے ساتھ ٹھیک کر رہے ہیں۔ ان سے درخواست ہے کہ کہ اپنی فاضل عدالت کے اس حکم پر سختی سے عملدرآمد کرائیں جس کے تحت شاہراہ قائداعظم پر مظاہرے کرنے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ یہ دو کروڑ کے قریب پہنچتے ہوئے زندہ دل لاہوریوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے مترادف ہو گا۔ نچلی سطح پر ڈی سی او لاہور اور انچارج ٹریفک پولیس دیکھیں کہ مظاہروں کے علاوہ بھی ٹریفک کی روانی میں موجود رکاوٹیں کیسے دور کرنا ہیں۔ صرف چوک نیلا گنبد کو ہی دیکھ لیں جہاں تجاوزات کا ’’قانون‘‘ منہ چڑاتا نظر آتا ہے اور جہاں تین لین میں ٹریفک چل سکتی ہے مگر ورکنگ اوقات میں ایک گاڑی کا راستہ بھی بمشکل نظر آتا ہے۔ ماضی کے خوش قسمت علاقے کو بدقسمتی کے دائرے میں لانے والے اسباب اگر آج دور نہ ہوئے تو آنے والا کل اہل اختیار میں سے کسی کو معاف نہیں کرے گا۔ کیا کل کا انتظار ضروری ہے؟

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...