یوم دفاع کے موقع پر جی ایچ کیو میں منعقدہ تقریب سے اپنے خطاب میں پاک فوج کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف نے جن باتوں کو موضوع بنایاموقع محل کے اعتبار سے یقینا ان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتابلکہ اس میں کوئی دو آراء نہیں ہو سکتیں کہ مخصوص مقامی و بین الاقوامی سیاسی منظرنامے کے پیش نظر قوم بحثیت مجموعی جن موضوعات پر جنرل راحیل کا مئوقف ان کی اپنی زبانی جاننے کی منتظر تھی انہوں نے ان موضوعات پر دلیرانہ مگر مہذب انداز میں روشنی ڈال کر جہاں سیکورٹی فورسز کی کار کردگی کو سراہتے ہوئے قوم کو حقائق سے آگاہ کیا وہاں دشمن کو متنبہ کرتے ہوئے بیرونی دنیا پر بھی پاکستان کا مئوقف دو ٹوک اور ٹھوس انداز میں واضح کیا ۔قوم ان کے عزم وہمت، قائدانہ کردار اور پیشہ ورانہ کار ہائے نمایاں کی بنا پر نہ صرف ان کی معترف ہے بلکہ بجا طور پر فخر کرتی ہے ۔ ضرب عضب پر بات کرتے ہوئے انہوں نے اس عزم کو دہرایا کہ یہ آپریشن ہماری بقاء کیلئے انتہائی اہم ہے لہٰذا دہشت گردی کے خلاف جنگ ہر قیمت پر جیتیں گے اور قومی سلامتی کی خاطر وہ اس مقصد کیلئے کسی بھی حد تک جائیں گے مگر ساتھ ہی ایک بار پھر قوم پر یہ بھی واضح کیا کہ دہشت گردی اور کرپشن کا گٹھ جوڑ ملک سے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کی راہ میں حائل ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آرمی چیف کی جانب سے متعدد بار واضح کرنے کے باوجود یہ گٹھ جوڑ مسلسل مضبوط کیوں ہے، دہشت گردوں کو فنڈنگ کہاں سے ہو رہی ہے اور اس کرپشن سے جیبیں بھرنے میں کون لوگ ملوث ہیں۔ امن و سلامتی ترقی کا بنیادی تقاضا ہوتا ہے۔ اگر ہم اقوام عالم میں عزت سے جینا چاہتے ہیں تو ہمیں ان مجرموں کا محاسبہ کرنا ہوگا۔ اگر دہشت گردی اور کرپشن کے گٹھ جوڑ جیسی بیماری کا تدارک نہیں کیا جاتا تو اندرونی کرپٹ عناصر آلہء کار اور سہولت کار بنتے رہیں گے اور قوم خمیازہ بھگتتی ر ہے گی ۔میری نظر میں یہ جنرل راحیل کے خطاب کا اہم ترین نکتہ ہے جس پر قوم کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا۔ کرپشن میں لبریز اگر اندرونی سہولت کاروں کا راستہ روکا جائے تو کوئی راء کوئی موساد ہمارا بال بیکا نہیں کر سکے گی۔ انہوں نے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد اور انصاف کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔قوم جانتی ہے کہ ضرب عضب کی کامیابی کیلئے قومی اتفاق رائے ضروری تھا اسلئے آغاز میں ہی وزیر اعظم نے آل پاٹیز کانفرنس میں اتفاق رائے کے بعد کراچی آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچانے،افغان مہاجرین کے مسئلے کا حل، فوجداری عدالتی نظام میں اصلاحات اور دہشت گردوں کے فنڈنگ ریسورسز منجمد کرنے جیسے اقدامات سمیت دہشت گردی کے خاتمے کیلئے بیس نکاتی نیشنل ایکشن پلان کی منظوری دی تھی۔ واضح رہے کہ کانفرنس میں اتفاق رائے سے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے نیشنل ایکشن پلان کے جملہ نکات پر عملدرآمد کا عزم ظاہر کیاگیا تھا۔ وسیع تر قومی اتفاق رائے کے باوجود آج بھی اگر آرمی چیف کو نیشنل ایکشن پلان پر عملدآمد کیلئے حکومت کی توجہ مبذول کروانے کی ضرورت محسوس ہوئی ہے تو یہ لمحہء فکریہ ہے۔ انہوں نے جو کہنا تھا کہہ دیا اب قوم کا فرض ہے کہ اس پہلو کا متانت و خلوص سے جائزہ لے اور اس حوالے سے اپنا بر وقت کردار ادا کرے۔ اپنے کثیرالجہتی خطاب میں انہوں نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیتے ہوئے دو ٹوک الفاظ میں واضح کیا کہ مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ یہاں یہ نکتہ قابل ذکر ہے کہ جنوری میں منظور ہونے والی قرارداد نمبر ۳۹ کے بعد اپریل ۱۹۴۸ء میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرارداد نمبر ۴۷ (سینتالیس) کے ذریعے کشمیر میں قیام امن اور رائے شماری کیلئے پانچ رکنی کمیشن بر صغیر بھجوانے کا فیصلہ کیا تھا مگر یہ قرارداد آج تک بے نتیجہ پڑی ہوئی ہے۔اگرچہ سلامتی کونسل کی ان قراردادوں کا تعلق اقوام متحدہ کے چارٹر کے چھٹے باب سے ہے اور یہ باب فوج کشی کی بجائے فریقین کے تنازعات کا پرامن حل تجویز کرتا ہے تاہم یہ تاثر غلط ہے کہ بے نتیجہ رہنا ان قراردادوں کا مقدر ہے۔ باب ۶ کے جملہ آرٹیکلز سے ہی عیاں ہے کہ سلامتی کونسل کو تنازعہ کے حل کیلئے دیگر آپشنز پرعمل کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ لہٰذا اگر کوشش پر خلوص ہو تو مثبت پیش رفت ناممکن نہیں۔جہاں تک شملہ معاہدہ کا تعلق ہے معاہدہ کے متن سے ہی واضح ہے کہ یو این چارٹر میں درج اصول اور مقاصدلاگو ہونگے۔ ظاہر ہے جہاں یو این چارٹر لاگو ہے سلامتی کونسل کی قرار دادیں نظر انداز نہیں کی جاسکتیں۔ شملہ معاہدہ پر دستخط دو جولائی ۱۹۷۲ء کو بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی اور پاکستانی صدر ذوالفقار علی بھٹو نے کئے جس کی توثیق ہر دو ممالک کی پارلیمان نے کی۔ معاہدہ کی شقوں سے یہ بھی عیاں ہے کہ مسئلہ کشمیر سمیت دیگر باہمی مسائل کے حل کیلئے پاک بھارت مذاکرات کا عمل جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔ اب اگر معاہدہ کا کوئی فریق خود ہی مذاکرات سے انکار ی ہے تو وہ معاہدہ کی خلاف ورزی کا مرتکب ہے۔بھارت اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود کشمیر میں رائے شماری سے انکارپر ڈٹا ہوا ہے ،شملہ معاہدہ کی خلاف ورزی بھی کر رہا ہے، بھارتی میڈیا اخلاق سے گری ہوئی زبان استعمال کر رہا ہے۔ کیا اسے شتر بے مہار رہنے کی آزادی ہے،اسے کوئی فورم روکنے ٹوکنے والا نہیں ؟ مگر یہ کام حکومت کے کرنے والے ہیں۔۴۶ ارب ڈالر مالیت کے چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے پربھارت کے پیٹ میں مروڑعین فطری بات تھی لہٰذا بھارت کی طرف سے اس منصوبہ کی مخالفت شروع دن سے جاری ہے۔جنرل راحیل نے اس منصوبے کو پاک چین دوستی کی بہترین مثال قرار دیتے ہوئے اسے نہ صرف ملکی معیشت کیلئے بنیادی قدم قرار دیاہے بلکہ کسی بیرونی طاقت کے دبائو کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے منصوبہ کو ہر قیمت پر مکمل کرنے کا عزم ظاہر کیا۔انہوں نے کہا کہ منصوبے کی بر وقت تکمیل اور حفاظت ہماری قومی ذمہ داری ہے۔ جنرل راحیل کے خطاب کی جزئیات سے ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ انہیں ہمارے دکھ درد کا کس حد تک احساس ہے ۔