دنیا میں جو قومیں تاریخ سے اور اپنے تجربوں سے سبق حاصل کرتی ہیں وہ اپنی آئندہ نسلوں کی ترقی و نشوونما اور فلاح وبہتری کے لئے طویل المیعاد پالیسیاں بناتی ہیں اور ان پر شدومد سے مسلسل عملدرآمد کرتی ہیں جبکہ اس کے برعکس جو قومیں ماضی کے سبق اور تجربوں سے رہنمائی حاصل نہیں کرتیں تو تاریخ بھی انہیں بھول جاتی ہے ۔اس تناظر میں دیکھیں تو6اور 9اگست1945کی تاریخ کو کون بھول سکتا ہے جب جاپان کے شہر ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے گئے تھے اور اس تباہی کے آثار آج بھی ان شہروں میں دیکھے جاسکتے ہیں مگر اس قدر تباہی کے باوجود اپنی انتھک محنت کی بدولت آج جاپان دنیا کی تیسری بڑی مضبوط معیشت ہے اور دنیا کا چوتھا بڑابرآمدکنندہ ہے۔ اسی طرح 1939سے 1945کا ایڈولف ہٹلرکا دور یہودی قوم پربڑا بھاری گزرا تھا جس کو آج بھی یہودی سیاہ ترین دور گردانتے ہیں مگر وہ اس سے دلبرداشتہ نہیں ہوئے بلکہ اپنے آپ کو منوانے کی جدوجہد کی اور دنیا کو معاشی وسیاسی طور پر کنٹرول کرنے کے لئے طویل المیعاد پالیسیاں ترتیب دیں اور ان کو کامیاب بنانے کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتیں استعمال کیں ۔ اس سلسلے میں 1944میں واشنگٹن میں ایک کانفرنس منعقد کی جس میں دنیا کو کنٹرول کرنے کے لئے دو فارمولے بنائے ایک معاشی مقاصد کے لئے اور ایک سفارتی معاملات کے لئے ۔سفارتی معاملات کے لئے 26جون 1945کواقوام متحدہ کا قیام عمل میں لایا گیا اوردیگر اقوام پر معاشی دباﺅ رکھنے کے لئے7جولائی1944کو انٹرنیشنل مانیٹری فنڈز(IMF ) کی بنیاد رکھی گئی کہ کس طرح ترقی پذیر ممالک اور دنیا کی قوموں کو محکوم بناکر رکھا جائے ۔ میرا چونکہ تعلق صنعت وتجارت سے ہے اسی لئے میں اس حوالے سے معاشی پہلو اور اس کے نتائج کا جائزہ لینے کی کوشش کروں گاکہ کس طرح پالیسیاں بنتی ہیں اور ان کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں کیونکہ جب ہم ایک طرف برابری، اصول پسندی اور انصاف کے قصیدے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہیں تو دوسری طرف گذشتہ 80سالوں سے دنیا کی طاقتور قوتوں نے ترقی پذیر ممالک کو کس طرح معاشی طور پر اپنا محکوم بنا یا ہوا ہے اور آئی ایم ایف جیسے ادارے قائم کرکے ترقی پذیر ممالک کے ارباب اختیار کو خرید کر من مانی پالیسیاں بنواتے رہے ہیں جس کے نتیجے میں آج دنیا کاپورا معاشی توازن بگڑچکا ہے خصوصاً پاکستان اپنی تاریخ کے بدترین دوراہے پر کھڑا ہے کہ جس پاکستان نے جنرل ایوب خان کے دور میں 1963میں جرمنی کو 120ملین روپے امداد فراہم کی تھی وہ آج دنیا کے کئی ممالک کا مقروض بن کر معاشی پستی کی طرف گامزن ہے ۔اس کے علاوہ 1953میں جنگ کی تباہ کاری کی وجہ سے جرمنی کی معیشت بالکل دیوالیہ ہوچکی تھی اس وقت دیگر کئی ممالک کے علاوہ پاکستان اور یونان اس کی امداد کرنے والے ممالک میں شامل تھے مگر قسمت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ ہمارے ارباب اختیار کی نااہلیوں کی وجہ سے آئی ایم ایف کی پالیسیاں ہم پر مسلط کی گئی اور اب ہم جرمنی کے مقروض ہیں اور وہ ہم کو کئی شعبوں میں امداد فراہم کررہا ہے اور یونان کی معیشت بھی آئی ایم ایف کی مہربانیوں کی وجہ سے تباہ بلکہ دیوالیہ ہوچکی ہے اور لگتا یہ ہے کہ ہمارے ارباب اختیار کی ناعاقبت اندیشیوں اور آئی ایم ایف کی پالیسیوں کاسارا ذورپاکستان کو ایشیاءکا یونان بنانے پر ہے ۔ جبکہ جرمنی اس وقت دنیا کا دوسرا بڑا برآمد کنندہ ہے اور اس کی معیشت دنیا کی چوتھی بڑی مضبوط معیشت ہے۔ہمارے لئے یہ بھی لمحہ فکریہ ہے کہ ہمارے معاشی افلاطون روم کے اس نیرو کا عملی مظاہرہ کررہے ہیں کہ روم جل رہا تھا اور نیرو بانسری بجا رہا تھا ۔ کیونکہ عالمی طاقتوں کے دوہرے معیار نے جہاں دنیا کو غیر متوازن کیا ہے وہیں پاکستان اپنے ارباب اختیار کی نالائقیوں کی وجہ سے کسی بھی معاشی میدان میں ترقی نہ کرسکا ہے۔ 1974میں بڑے صنعتی ممالک نے ملٹی فائبر معاہدے (MFA)کے تحت ترقی پزیر ممالک پر ٹیکسٹائل سے متعلق مصنوعات کی درآمد پر کوٹہ سسٹم متعارف کرایا تھاتاکہ جو ممالک ٹیکسٹائل کی مصنوعات برآمد کرسکتے ہیں ان کی برآمدات کو محدود کیا جائے ۔ اس کے بعد 1989میں جون ولیمسن نامی انگلش اقتصادی ماہر کے دس نکات کے تحت ایک معاشی معاہدہ ترتیب دیا گیا جو واشنگٹن کنسنسس (Washington Consensus) کہلایا جس میں معاشی مشکلات کا شکار ترقی پذیر ممالک کی فلاح وبہبود کے نام پر ان کو ورلڈ بینک ، آئی ایم ایف اور یوایس ٹریژی ڈیپارٹمنٹ کا غلام بنایا گیا ۔ اس کے تحت بہت سے ممالک نے اصلاحات پیکج کے مختلف اجزاءکو اپنے ملک میں لاگو کرنے کی کوشش کی مگر اس میںآئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے قرض حاصل کرنے کی شرط شامل تھی مگر یہ اصلاحات بہت تباہ کن ثابت ہوئےں اور اس کی وجہ سے کئی ممالک کو معاشی عدم استحکام کا سامنا کرنا پڑا اورارجنٹینا سمیت لاطینی امریکہ کے ممالک اور شمالی کوریا معاشی مشکلات کا شکار ہوئے ۔ اس کے علاوہ مشہور اقتصادی نقادوماہرین نوم چومسکی ،طارق علی، سوسن جارج اور نومی کلین کہتے ہیں کہ واشنگٹن اتفاق رائے ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے ترقی پذیر ممالک کے مزدوروں کا معاشی استحصال کا طریقہ ہے۔ اس کے بعد یکم جنوری 1995کو عالمی طاقتوں نے ترقی پذیر ممالک کو مزید شکنجوں میں جکڑنے کے لئے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (WTO) کے نام سے تنظیم بنائی جس پر 123ممالک نے بغیر سوچے سمجھے دستخط کئے جس میں پاکستان بھی شامل تھا ۔ مگر اس عالمی تجارتی تنظیم(WTO) بنانے والی عالمی طاقتوں نے اس میں جو ضابطے طے کئے اور جو قوانین متعارف کرائے اس میں ترقی پذیر ممالک کی فلاح وبہتری کے بجائے ترقی یافتہ ممالک کا مفاد پنہاں تھااور اس میں بھی عالمی معاشی اداروںکے سرپرست امریکہ نے حسب معمول اپنے دوہرے معیار کا مظاہرہ کرتے ہوئے ترقی پذیر ممالک پر اپنے صارفین اور صنعتی ، تجارتی وزرعی شعبوںکو سبسڈی دینے پر پابندی لگائی مگر خود امریکہ سمیت عالمی طاقتیں اپنے صارفین اور مختلف شعبہ جات کو سبسڈی اور اداروں کوبیل آﺅٹ پیکجز دیتے رہے ہیں جیسا کہ جنرل موٹرز کو امریکہ نے2009میں 360.6ملین ڈالرز کا بیل آﺅٹ پیکج دیا تھا اور امریکہ و دیگر ممالک اپنے کسانوں کو سالانہ اربوں ڈالرز کی سبسڈی فراہم کررہے ہیں جبکہ صرف امریکہ فارم سبسڈی کی مد میں سالانہ بیس ارب ڈالرز اپنے کسانوں کو دے رہا ہے اور تین ارب ڈالرزکی سبسڈی ان کسانوں کو دی گئی ہے جہاں سے اناج کا ایک دانہ بھی حاصل نہیں ہوا ہے۔ اس کے علاوہ عالمی تجارتی تنظیم کے ضابطوں کی وجہ سے ترقی یافتہ ممالک جوسائنس و ٹیکنالوجی کے ماہر ہیں وہ ٹیرف کی پا بندیاں ہٹنے کے بعد اپنی مصنوعات کو بڑی تعداد برآمد کرنے پر قادر ہوئے اور جن جی ۔8ممالک کے دباﺅ پر یہ عالمی تجارتی تنظیم بنی ہے ان کی برآمدات میں اضافہ ہی دیکھنے میں آیا ہے جیسا کہ جی ۔8ممالک میں سے جرمنی دنیا کا دوسرا بڑا برآمدکنندہ جبکہ دنیا میں برآمدات میں امریکہ کا تیسرا نمبر،جاپان کاچوتھا نمبر، فرانس کاپانچواں نمبر،اٹلی کا آٹھواںنمبر ، روس کا نواں نمبر اور یوکے کا دسواں نمبر ہے۔ مگر آذاد تجارت کا سب سے ذیادہ فائدہ چین نے اٹھایا جس نے اپنی برآمدات بڑھاتے ہوئے دنیا کی دوسری بڑی مضبوط معیشت اور دنیا کا سب سے بڑا برآمد کنندہ کا اعزاز حاصل کیا ہے ۔ اس لئے ترقی پذیر ممالک کے لئے یہ آذاد تجارت نہیں بلکہ عالمی طاقتوں کا دکھایا ہوا ایک سراب اور دھوکہ ہے جس میں ترتی پذیر ممالک بالخصوص پاکستان ڈوبتا جارہا ہے اور ترقی یافتہ ممالک آذادانہ تجارت کے نام پر دوطرفہ نہیں بلکہ یکطرفہ تجارت کو بڑھائے جارہے ہیںاس لئے آزاد تجارت جس کو ترقی کا آغاز کہا جارہا تھا وہ نہ ہی آذاد تجارت ہے اور نہ ہی کسی بھی غریب یاترقی پذیر ملک کے لئے ترقی کی نشانی ہے ۔ گلوبل پالیسی فورم کی 29جولائی اور 14نومبر2011کی رپورٹ کے مطابق عالمی تجارتی تنظیم غریب اور ترقی پذیر ممالک کی بہتری کے لئے کوئی کام انجام نہیں دے پائی ہے کیونکہ امیر ممالک اس راہ کی روکاوٹ بنے ہوئے ہیں جبکہ عالمی تجارتی تنظیم کی ہی رپورٹ کے مطابق عالمی تجارت پر بڑی کمپنیوں کا غلبہ ہے مگر چھوٹی اور درمیانے درجے کی کمپنیاں اس میں اپنا حصہ ڈال سکتی ہیں۔31دسمبر2004کو برآمدی کوٹہ کی حد کا خاتمہ ہوا تھا اور اندازہ لگایا جارہا تھا کہ پاکستان کی برآمدات بالخصوص ٹیکسٹائل کی برآمدات دگنی ہوجائیں گی مگر ٹیکسٹائل کی برآمدات میں اضافہ کے بجائے بتدریج کمی دیکھنے میں آرہی ہے ۔
اس کے علاوہ ہمارے معاشی ارباب اختیار کی نااہلی یا نالائقی ہے کہ یورپی ممالک سے جو جی ایس پی پلس کا اسٹیٹس ہم کو 2013میں ملا تھا اس کا بھی ہم فائدہ نہ اٹھا پائے ہیں اور ہماری برآمدات میں اضافے کے بجائے کمی ہی دیکھنے میں آرہی ہے جبکہ یہ جی ایس پی پلس کا اسٹیٹس 2017میں ختم ہوجائے گا۔ اس لئے حکومتی ذمہ داراوں کو چاہیے کہ وہ پاکستان کے ذمینی حقائق کے مطابق اپنی معاشی پالیسیاں بنائیں اور پاکستان کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی ان پر عملدرآمد کریںکیونکہ عالمی طاقتوں کی ایما ءپر بنائی گئی پالیسیوں اور ان پر عملدرآمد کرنے سے توپاکستان کا سراسر نقصان ہی ہے۔
ٓ