اسلام آباد(سہیل عبدالناصر) جمعہ کی صبح خوشگوار چمکیلی دھوپ میں پارلیمنٹ کا مر مریں ایوان مزید دمک رہا تھا، آنکھیں چندھیا رہی تھیں لیکن اندر قومی اسمبلی کے درودیوار پر اور راہداریوں میںاداسی بال کھولے سو رہی تھی۔ پہلی بدشگونی یہ ہوئی کہ قومی اسمبلی کے اجلاس کی کارروائی خاصی تاخیر سے شروع ہوئی۔ دونوں اطراف کے ارکان کی تعداد انتہائی کم تھی۔وقفہ سوالات کے دوران صاف عیاں تھا کہ کارروائی چلانا شائد حکومت کے بس کی بات نہیں رہی۔ وزیر قانون ، زاہد حامد، جنہوں نے سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار کو فاٹا تک بڑھانے کا بل بمشکل پیش ہی کیا تھا کہ کورم پورا نہ ہونے کی نشاندہی کر دی گئی۔ گھنٹیاں بج چکی تھیں۔ ایوان میں موجود اپوزیشن کے گنے چنے ارکان بھی رخصت ہونے کیلئے پر تول رہے تھے، اور زاہد حامد انہیں بیٹھے رہنے کے اشارے کر رہے تھے لیکن شیریں مزاری جیسے شوریدہ سر اپوزیشن ارکان کہاں مانتے ہیں۔ اسی اثناءمیں ڈپٹی سپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی نے کورم پورا نہ ہونے اور اجلاس پیر کی سہ پہر تک ملتوی ہونے کا اعلان کیا تو زاہد حامد اپنی فائلیں بغل میں دبا کر اپوزیشن سے بھی پہلے چلتے بنے۔ کورم کی نشاندہی ہونے سے پہلے ہی یہ خبر ایوان میں پہنچ چکی تھی کہ پانامہ کیس میں سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم کی طرف سے نظر ثانی کی درخواست خارج کر دی ہے ۔ اس خبر نے سرکاری ارکان کا رہا سہا مورال بھی گرا دیا اور سب نے اجلاس کے التواءمیں عافیت جانی۔ کورم پورا رکھنا اگرچہ حکومت کا فرض ہے جس کی بجا آوری میں کئی دنوں سے اسے ناکامی ہو رہی ہے تاہم سیاسی و جمہوری عمل کے تسلسل کو برقرار رکھنا، سیاسی جماعتوں ، بالخصوص منتخب ارکان کی اجتماعی ذمہ داری ہوتی ہے۔ جب نظام کی بساط سمٹتی ہے، تو چارج شیٹ سب کے خلاف ہوتی ہے، دیکھئے، منتخب ارکان کب اس حقیقت کا ادراک کرتے ہیں۔اجلاس کے التواءکے بعد جب ارکان ٹولیوں کی شکل میں ایوان سے نکل رہے تھے تو سپریم کورٹ سے نواز شریف کی درخواست کا خارج کیا جانا ہی موضوع گفتگو تھا۔ ایک واقف حال نے تجزیہ کیا کہ نواز شریف نے پورے سیاسی کیرئیر میں وسطی اور بالائی پنجاب میں اپنی طاقت پر تکیہ کیا۔ اس خطہ کے عوام، سیاسی گروپوں، افسر شاہی کے کارندوں، ججوں اور جرنیلوں کے بل پر انہوں نے سیاست کی ، لیکن اب بالائی پنجاب کے طاقتور عناصر نے ہی انہیں اقتدار سے نکال باہر کیا ہے۔ اگر نواز شریف کی صحت اور زندگی نے وفا کی، انہوں نے اس صورتحال سے کوئی سبق سیکھا تو وہ خیبر پی کے، بلوچستان اور سندھ میں بھی مسلم لیگ(ن) کی سیاسی طاقت کے مراکز قائم کرنے کی کوشش کریں گے۔ پیپلز پارٹی کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ ،پاکستان کے انتہائی جنوبی قصبوں سے لے کر پنجاب کے تمام اضلاع اور چین کے سرحد سے متصل انتہائی شمالی علاقوں میں بھی وہ ایک مقبول جماعت رہی ہے لیکن پیپلز پارٹی، اپنی مقبولیت کا گراف برقرار نہیں رکھ سکی، پنجاب سے تقریباً اس کا صفایا ہو چکا ہے ۔ قومی سیاسی جماعتوں کا مخصوص علاقوں تک بتدریج محدود ہونا ، قومی یکجہتی اور ریاست کے استحکام کے منافی ہے۔ ایم کیو ایم کی طرف سے تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی کو پیپلز پارٹی کے سید خورشید شاہ کی جگہ اپوزیشن لیڈر بنوانے کی کوششوں کی کامیابی کے امکانات، مضمرات اور پس منظر میں کام کرنے والی ممکنہ قوتوں کے کردار پر بھی ، پارلیمنٹ کی راہداریوں میں سرگوشیاں جاری تھیں۔