اسلام آباد (سٹاف پورٹر) سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے اختیار سماعت کو وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں تک توسیع دینے کا بل جمعہ کے روز قومی اسمبلی میں پیش کر دیا گیا۔ وزیر قانون زاہد حامد نے یہ بل پیش کیا تاہم کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے بل پر مزید کارروائی نہیں ہو سکی۔ اس بل کی رو سے فاٹا کے عوام سپریم کورٹ کے علاوہ اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کر سکیں گے۔ محمود خان اچکزئی اور متعدد دیگر ارکان نے اس بل کی مخالفت کی، ساتھ ہی انہوں نے فوری طور پر ایوان میں کورم کی نشاندہی کر دی۔ ڈپٹی سپیکر نے گنتی کا حکم دیا‘ ارکان کی مطلوبہ تعداد پوری نہ ہونے کی وجہ سے قومی اسمبلی کا اجلاس پیر کو سہ پہر تین بجے تک کےلئے ملتوی کر دیا گیا۔ یہ بل وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں یا اس کے کسی بھی حصہ میں اس تاریخ سے یا تاریخوں سے نافذ العمل ہو گا جن کا وفاقی حکومت، سرکاری جریدہ میں اعلان کے ذریعہ تعین کر سکتی ہے۔ بل کے مطابق عدالت عظمیٰ اور اسلام آباد ہائیکورٹ وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں کی نسبت ویسے ہی اختیار سماعت کی حامل ہو گی جیسا کہ اسے وفاقی دارالحکومت کے علاقہ کی نسبت سے اختیار حاصل ہے۔ بل کی اغراض و وجوہ میں بتایا گیا ہے کہ فاٹا کے عوام کو ان کی خواہشات اور امنگوں کے مطابق مرکزی دھارے میں لانے کیلئے یہ ضروری ہے کہ عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ اسلام آباد کے اختیار سماعت کو ان علاقوں تک توسیع دی جائے تاکہ ان کے حقوق کا تحفظ ہو سکے اور دستور کی مطابقت میں انصاف کے صحیح انصرام کا اہتمام کیا جا سکے۔ علاوہ ازیں قومی اسمبلی کو بتایا گیا کہ گزشتہ دو دہایﺅں کے دوران ملک میں نئے ڈیم نہ بنا کر مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا گیا۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے دس بڑے ملکوں میں شامل ہے۔ چاروں صوبوں میں مختلف سرکاری اداروں اور افراد نے 4174.198 ایکڑ اراضی پر قبضہ کر رکھا ہے۔ ایوان زیریں کے وقفہ سوالات کے دوران شاہدہ رحمانی کے سوال کے جواب میں پارلیمانی سیکرٹری راجہ جاوید اخلاص نے کہا کہ پاکستان نومبر 2016ءمیں ماحولیاتی تبدیلی کے حوالہ سے پیرس معاہدے کی توثیق کر چکا ہے‘ یہ بین الاقوامی اور پاکستان کا اہم مسئلہ ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے مسئلہ کی وجہ سے صنعتی اور دیگر شعبوں میں اصلاحات متعارف کرائی جا رہی ہیں۔ پانی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے گرین پاکستان پروگرام کے تحت 3 ارب 65 کروڑ سے زائد رقم مختص کی گئی ہے۔ مشترکہ مفادات کونسل کے ذریعے موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے اقدامات کی منظوری لی گئی ہے۔ وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومتوں کو بھی موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے مسائل کے حوالے سے ذمہ داریاں پوری کرنی چاہئیں۔ وفاقی حکومت اس سلسلے میں صوبوں کے ساتھ رابطے میں ہے۔ محمود خان اچکزئی کے سوال کے جواب میں پارلیمانی سیکرٹری نے کہا کہ دس سے بیس سال قبل منگلا اور تربیلا کے سوا ڈیم نہیں بنے، یہ مجرمانہ غفلت ہے۔ مسلم لیگ کی ن حکومت نے پی ایس ڈی پی میں دو تین ڈیموں کےلئے رقوم مختص کی ہیں، پانی کے نئے ذخائر تعمیر کرنے کےلئے عملی اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ وزیر مملکت برائے کیڈ ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے ایوان کو بتایا کہ میٹرو بس منصوبہ جڑواں شہروں کے لئے مفید ہے۔ وفاق اور پنجاب حکومت میٹرو بس اتھارٹی کے ذریعے سبسڈی دے رہی ہے۔ پارلیمانی سیکرٹری راجہ جاوید اخلاص نے ایوان کو مطلع کیا کہ پاک چین معاشی راہداری منصوبہ کے تحت حویلیاں ریلوے ٹریک کو خنجراب سے ملانے کی تجویز زیر غور ہے۔ سی پیک کے ذریعے ایم ٹو‘ حویلیاں خنجراب ریلوے رابطہ کو گوادر اور جیکب آباد سے خضدار‘ پنجگور‘ خوشاب اور تربت سے ملانے کی تجویز شامل ہے۔ پشاور سے کراچی ریلوے روٹ کو بھی سی پیک کے ساتھ منسلک کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ 2020ءمیں 160 کلو میٹر فی گھنٹہ رفتار بھی یقینی بنائی جائے گی۔ وزارت ریلوے کی جانب سے ایوان کو بتایا گیا ہے کہ چاروں صوبوں میں ریلوے کی اراقضی پر قبضہ کیا گیا ہے۔ پنجاب میں 1699.26 ایکڑ‘ خیبر پی کے میں 11.435 ایکڑ‘ سندھ میں 1110.277 ایکڑ‘ بلوچستان میں 561.054 ایکڑ‘ محکمہ دفاع نے پنجاب میں 172.925 ایکڑ‘ کے پی کے میں 14.730 ایکڑ‘ سندھ میں 15.360 ایکڑ‘ بلوچستان میں 48.223 ایکڑ‘ دیگر سرکاری محکموں پنجاب میں 271.403 ایکڑ‘ کے پی کے میں 224.749 ‘ سندھ میں 32.325 ایکڑ اور بلوچستان میں 10.191 ایکڑ اراضی پر قبضہ کیا ہوا ہے۔
-قومی اسمبلی: عدالتی دائرہ اختیار فاٹا تک بڑھانے کا بل پیش، اچکزئی سمیت متعدد ارکان کی مخالفت
Sep 16, 2017