کلثوم نواز ۔ باوقار خاتون۔ بااعتماد سیاستداں

Sep 16, 2018

سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی اہلیہ اپنے شوہر کے ساتھ 45سالہ رفاقت نبھانے کے بعد اللہ تعالیٰ کو پیاری ہوگئیں ۔ محترمہ کلثوم نواز ایک انتہائی نفیس خاتون ، بردبار شخصیت کی مالک اعلیٰ تعلیم یافتہ ، انتہائی مہذب ، بہترین بیوی ، بہترین ماں ، بہترین بہو کا کردار بخوبی نبھا کر اس دار فانی سے کوچ کرگئیں ۔ محترمہ کلثوم نواز گزشتہ ایک برس سے کینسر کے موذی مرض میں مبتلا تھیں اور لندن میں زیر علاج رہیں ۔ اس دوران ان کے شوہر نواز شریف ، بیٹی مریم اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کو عدالت سے سزا ہوگئی ۔ سزا کے بارے میں لندن میں زیر علاج محترمہ کلثوم نواز کو آگاہ نہیں کیا گیا اور اس قسم کی تمام باتیں ان سے چھپائی گئیں ۔ محترمہ کلثوم نواز کے انتقال پر نہ صرف شریف فیملی یا مسلم لیگیوں کو اس بری طرح افسوس رنج و غم ہوا ہے بلکہ عام پاکستانی اور ہر سیاسی جماعت کے رہنمائوں کا رکنوں اور ہر عام آدمی کو بھی بہت افسوس ہوا ہے ، محترمہ کلثوم نواز کی جمہوریت کیلئے جدوجہد اور آمریت کے دور میں ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا ہر طبقہ فکر نے اعتراف کیا ہے ، یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ اپنے شوہر کو مصائب سے نجات دلانے کیلئے ملک بھر میں انہوں نے جلسے ، جلوس ، ریلیوں سے خطاب کیا اور جب ان کا یہ مشن مکمل ہوگیا تو محترمہ پھر اپنے گھر میں اپنے گھریلو و خاندانی امور نپٹانے میں مصروف ہوگئیں ۔
نواز شریف کے والد میاں محمد شریف بھی اپنی بہو سے بہت محبت اور انکا احترام کرتے تھے اور خاندانی یا سیاسی معاملات ومسائل پر میاں شریف اپنی بہو محترمہ کلثوم نواز کی رائے کو بڑی اہمیت دیتے تھے ۔ برسوں پر انی بات ہے کہ جب لندن میں ان کے صاحبزادوں نے اپنی تعلیم مکمل کی تو اس حوالے سے لندن کے تعلیمی ادارے میں منعقد ہونیوالی تقریب میں شرکت کیلئے میاں نواز شریف اور کلثوم نواز لندن جانے کیلئے جب کراچی ایئرپورٹ پر پہنچیں تو چند صحافی حضرات بھی پہنچ گئے ۔ میں بھی ان میں شامل تھا ۔ شام کا وقت تھا نواز شریف سے صحافیوں نے بات چیت کرلی جب نوازشریف نماز پڑھنے کھڑے ہوئے تو صحافیوں نے میاں صاحب سے کہا کہ ہم بیگم صاحب سے تھوڑی سی بات کرلیں تو میاں صاحب نے کہا کہ بھئی دیکھو یہ سیاستدان نہیں ہیں ان سے الٹے سیدھے سوال نہ کریں ۔ خیر صحافی نے ہلکی پھلکی بات چیت بیگم کلثوم نواز سے کی یہ بات مجھے اس لئے یاد آئی کہ جب نواز شریف مشرف دور میں پابند سلاسل ہوئے تو بیگم کلثوم نواز ایک دم میدان سیاست میں آگئیں اور کہا کہ میں اپنے شوہر کو بچانے آئی ہوں اور انہوں نے بڑی بردباری سے اپنا سیاسی کردار ادا کیا جس پر انہیں آج تک زبردست خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے ۔ اگر وہ مکمل سیاست میں ہوتیں تو بہت موثر کردار ادا کرسکتی تھیں لیکن وہ سیاست کرنے کی بالکل خواہشمند نہیں تھیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے ۔
حکومت میں مسلم لیگ کی آخری نشانی محترم ممنون حسین اپنی صدارت کی مدت پوری کرکے بڑے آبرو مندانہ طریقے سے رخصت ہوگئے اور ان کی جگہ پی ٹی آئی کے رہنما ڈاکٹر عارف علوی نے صدرمملکت کی حیثیت سے حلف اٹھالیا اور آئندہ چند روز میں ڈاکٹر عارف علوی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اپنا پہلا خطاب کریں گے جس سے ان کے عزائم واضح ہونگے ۔ جہاں تک ممنون حسین کا تعلق ہے تو یہ حقیقت ہے کہ دستور پاکستان میں صدر مملکت کے عہدے کے حوالے سے جو قانون وقواعد موجود ہیں ان سے ذرہ برابر انحراف نہیں کیا اور مملکتی امورمیں صدر کے عہدے کے مطابق کردار ادا کیا ۔ گو کہ ممنون حسین کی خاموشی ، ، شرافت پر بھی تنقید کی جاتی رہی اور تہذیب سے ہٹ کر ان کے بارے میں گفتگو اور سوشل میڈیا پر نازیبا طریقہ اختیار کیا گیا ۔ یہ وہ طبقہ ہے جس کو آئین پاکستان میں صدر مملکت کے طے کردہ کردار کے حوالے سے علم نہیںہے یہاں یہ عجیب بات ہے کہ اگر کوئی اپنی حدود سے تجاوز کرے تو اس پر تنقید تو جائز بنتی ہے لیکن اگر کوئی اپنے آئینی کردار کی حدود میں رہتے ہوئے اپنا کردار ادا کرتا ہے تو اس پر بھی تنقید بیجا تنقید ، بد تہذیبی و بد اخلاقی اور پست ذہنیت کا اظہار کیا جاتا ہے اس سے ممنون حسین کی شخصیت پر تو کوئی اثر نہیں پڑابلکہ بیمار ذہنیت کے حامل لوگوں کا کردار ضرور نظر آگیا ممنون حسین نے اپنی تقاریر اردو میں کیں اور ایک آئینی و روایتی صدر کا کردار ادا کیا اور کسی حوالے سے ان پر الزامات عائد نہیں کیے جاسکتے خیراب دیکھنا یہ ہے کہ محترم صدر مملک عارف علوی جو بظاہر بڑے متحرک نظر آرہے ہیں اور اعلان کرچکے ہیں کہ وہ خاموش صدر نہیں ہونگے متحرک ہونگے تو دیکھنا یہ ہے کہ وہ کس انداز میں متحرک صدر کا کردارادا کریں گے ۔ بہر حال یہ ضرور خوشی کی بات ہوگی کہ وہ تعلیم ، صحت جیسے شعبوں کی بہتری میں اگر اپنا رضاکارانہ کردار ادا کرتے ہیں اور اپنی پی ٹی آئی کی حکومت پر بھی مختلف حوالوں سے بے باقاعدگیوں یا آئین سے بالا تر اقدامات پر نظر رکھتے ہیں اور اپنے وزیر اعظم کو روایتی یا غیر روایتی انداز میں موثر مشوروں سے نوازتے ہیں جس سے حکومت کی کارکردگی میں بہتری ہو تو یہ ایک اچھا عمل ہوگا لیکن ان تمام امور میں بھی انہیں اپنے منصب صدارت کی متعین کردہ آئینی حدود کو ضرور مد نظر رکھنا ہوگا ۔ بہرحال قوم کی دعائیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ ملک و قوم کو درپیش خارجہ و داخلی مشکلات سے نجات دلانے کیلئے یہ حکومت اپنا مثبت و موثر کردار ادا کرے ۔

مزیدخبریں