کہنے کو تو وہ لاہور میں چیف ٹریفک پولیس آفیسر ہیں لیکن پہلی ملاقات میں مجھے محسوس ہوا کہ وہ ایک صوفی اور ایک اعلی پائے کے ادیب ہیں۔جن کی نظر معاشرے کے ہر ہر پہلو پر ہے ۔ان سے بہت سے موضعات پہ بات چیت ہوئی اورا ن کی محبت کہ وقت رخصت انہوں نے اپنی کتاب’’حاصل لاحاصل ‘‘ پیش کی۔کتاب کیا ہے ایک گلدستہ ہے جس کا ہر پھول اپنی ایک الگ ہی خوشبو سے مہکائے چلا جارہا ہے ۔ کیپٹن (ر) لیاقت علی ملک کے جملوں میں بے ساختگی, ورافتگی اور مقصدیت پڑھنے کو ملتی ہے ۔کتاب کا ہر ورق ان کے زندگی کو قریب سے دیکھنے کوظاہر کرتا ہے ۔کتاب میںارود نثر اورپنجابی شاعری کو ساتھ ساتھ شامل کیا ہے ۔پنجابی شاعری جس میں انہوں نے خوبصورت استعارات اور دلکش اصلاحات کو بڑی خوبصورتی سے جابجا استعمال کرتے ہوئے اعلی روحانی قدروں اور ارفع حقیقتوں کو دل نشین پیرائے میں بیان کردیا ہے۔ کتاب میں وہ ہر پہلو پر نظر ڈالتے ہیں مگر انسانی رویوں پر ان کی گرفت کافی سخت نظرآتی ہے ۔وہ لکھتے ہیں کہ انسان ہمیشہ کا جلد باز ہے اس لیے کبھی بھی حاصل پر خوش نہیں رہتا ۔اور حیلے بہانے ڈھونڈ کر چھوٹی چھوٹی باتوں کے بتنگڑ بنا کے خالق سے شکوہ کرتا ہے اور الجھتا رہتا ہے ۔کبھی اپنے نصیب پر خوش رہ کے حاصل کو عطا نہیں سمجھتا۔بلکہ ہر حاصل کو زورِ بازوکا کمال تصور کر کے فخرکرتا ہے اورجب قدرت یہ باور کراتی ہے کہ یہ سب غیر مشروط عطا ہے اور اس میں سے کچھ عارضی طور پر واپس لے لیتی ہے تو بلبلا اُٹھتا ہے ۔ایسے روتا پیٹتا اور ماتم کرتا ہے جیسے یہ سب اس کا اپنا تھا۔خود کا حاصل اور کمایا ہوا۔ آج کے معاشرے پہ بڑی بے باکی سے کچھ یوں لکھتے ہیں کہ دوسرے کو دکھ میں دیکھ کر ہمیں ایک عجیب طمانیت اور نفسیاتی سکون سا میسر آتا ہے ۔یہ دراصل ہماری غلاظت اور انسان بنانے والے سے دوری کی دلیل ہے ۔اللہ کے مقبول بندے تو دوسروں کے سُکھ کیساتھ سُکھی اور ان کی تکلیف کے ساتھ تکلیف میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔لکھتے ہیں کہ جذبات کی کوئی پہچان نہیں ہوتی,یہ الفاظ اور معانی,تراکیب اور صرف و نحو سے پاک ہوتے ہیںاس لیے تو قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی ہر بات برصغیر کے مسلمانوں کے دلوں میں سیدھی جا اترتی تھی۔ برصغیر میں مسلمان تعلیم کے شعبے میں بہت پیچھے تھے۔ کم پڑھے لکھے یا ان پڑھ۔ مگر اپنی تاریخ بنانے کیلئے ایک ایسے شخص کو دیکھنے کی تمنا لیے ہوئے مسلم لیگ کے جلسوں میں جا پہنچتے جس کے بارے انہیں پتہ تھا کہ انگریزی بولتا ہے ,انگریزی پہنتا ہے, انگریزی کھاتا ہے مگر بات ان کروڑوں مسلمانوں کی کرتا ہے جو عبادت, تعلیم, آزادی, سماجی اور سیاسی برابری سے محروم تھے۔لوگوں کے دلوں پر ان کے سچا ہونے کا اثر ایسے ہوا کہ جناحؒ کی کہی ہوئی ہر بات اور الفاظ وہ براہ راست دلوں میں اترتے محسوس کرتے۔ اس وقت نہ کوئی قائد کا مترجم ہوتا اور نہ کسی کو ترجمے کی ضرورت محسوس ہوتی۔
آج کی پاکستانی قوم کی حالتِ زار پہ لکھتے ہیں کہ اس ملک میں گوالا دودھ میں گندہ پانی ملارہا ہوتا ہے۔ ہارمون کا انجیکشن بھینس کو لگا کر دودھ کی پیداوار میں اضافہ کر رہا ہوتا ہے۔ مگر اسے اپنی فصل کیلئے جعلی کھاد اور ادویات دینے والوں سے شکوہ ہے۔قصاب مردہ جانور, گدھے, کتے اور دوسرے حرام جانوروں کا گوشت پانی لگا کر’’حلال‘‘ کہہ کر بیچ رہا ہوتا ہے مگردوسروں کے مرچوں میں رنگ اور ’’پھک‘‘ ملانے پر ناراض ہوتا ہے ۔کریانے والا کم تولتا ہے چاول اور دال میں ملاوٹ کرتا ہے۔بیسن میں مٹر پیس کر ملاتا ہے۔گھی میں گندہ آئل ملاتا ہے۔مگر وہ بھی مارکیٹ میں بکنے والی جعلی کریم سے خائف رہتا ہے۔سٹور والا بیوٹی کریم میں بال صفا پاوڈر ملاتا ہے۔ بچوں کے دودھ میں میلامائن ملاتا ہے,جعلی پیپسی اور کوک بیچتا ہے۔ مگر سبزی والے کی پانی ملی سبزی اور آلوووں سے بیزار رہتا ہے۔ سبزی والا گندی اور گلی سڑی سبزی اور پھل نیچے ڈال کر اور اوپر اچھی چیزیں قسمیں کھا کے بیچ دیتا ہے ۔وہ قیمت کا تعین خریدار کی گاڑی اور اس کے کپڑے دیکھ کر کرتا ہے۔ گاڑی والا بھی سب سے پریشان نظر آتا ہے مگر وہ ٹیکس نہیں دینا چاہتا,بجلی پانی اور گیس کے بل,ملازمو ں کی تنخواہ نہیں دینا چاہتا ۔اور کاوربار میں بہتری نہ ہونے کا سبب حکومت کے سر دھر دیتا ہے ۔ہم مسلمان ایمان اپنی مرضی کا اختیار کرتے ہیں ,نماز پڑھتے ہیں روزہ رکھتے ہیں,حج و صداقات کا اہتمام بھی کرتے ہیں مگر اپنا رزق حلال کمانے کی بجائے ,اوپر کی کمائی سے اپنوں میں اپنی’ٹوور‘بنانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ پر سکون زندگی گزارنے ,اعلی نام, مقام اور شہرت ِ دوام کیلئے لوگ ہوا کے رخ پر چلنے لگتے ہیں اس سے وقتی طور پر زندگی پرسکون,پرتعیش اور رنگین ضرور ہوجاتی ہے۔ مگر روح اور فکر کی تسکین کیلئے ضروری ہے کہ لوگوں میں سکون بانٹا جائے,لوگوں کی عزت مرتبہ نہیں انسان سمجھ کے کی جائے۔پھر وہ لوگ راتو ں کو اٹھ کے صرف آپ کیلئے نہیں بلکہ آپ کے ماں باپ کی بخشش کیلئے بھی دعا کر رہے ہوتے ہیں۔اور آپ ان دعاوں سے بے خبر تازہ دم ہو تے ہوئے اپنی روح کو سکون میں محسوس کرتے ہیں ۔یہی کامیابی ہے ۔
صاحبومجھے تو لیاقت علی ملک پولیس کی وردی میں ایک مرد کامل نظر آتا ہے جو لاحاصل کے پیچھے بھاگنے کی بجائے حاصل پہ شکر کا درس دیتا ہے۔یہ کتاب ہر سکول و کالج اور یونیورسٹی کے اساتذہ و طلبا اور ہر شہری کیلئے بہت سے سبق سمیٹے ہوئے ہیں۔ جس سے مستفید ہو کے ایک بہتر مستقبل کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے ۔اور ہمارا معاشرہ انسان دوست معاشرہ بن سکتا ہے۔