کشمیر پر ڈھائی جانے والی قیامت کے بعد حلقوں کا خیال تھا کہ دنیائے اسلام‘ بالخصوص خلیجی عرب ریاستیں نئی دہلی کے اس بہیمانہ اقدام پر کچھ نہ کچھ ردعمل کا اظہار ضرور کریں گی۔ مگر ’بسا آرزو کہ خاک شدہ‘‘۔ ہر طرف گہرا سکوت ہے۔ ماسوائے چند کمزور آوازوں کے، کسی نے زبان تک نہ کھولی۔ اور اگر کھولی بھی، تو جارح بھارت کی حمایت میں۔ جس پر بسم اللہ پڑھ کر مسلم ریاستوں کا نام لینے والے سادہ لوح پاکستانیوں کو اوّل تعجب ہوا‘ اور پھر سے وہ مایوسی اور صدمہ کی کیفیت میں چلے گئے۔ جذبابیت کی انتہا کہ توقعات باندھتے وقت یہ بھول گئے کہ خلیجی عرب ریاستوں کی اور خطّہ میں بگڑتے ہوئے حالات پر تشویش کا اظہار کیا اور پھر بین الاقوامی قرادادوں کے مطابق مسئلہ کے پر امن حل کی بات کی۔UAE نے مذکورہ آئینی ترمیم کو بھارت کا داخلی معاملہ قرار دیا۔دیگر خلیجی ریاستوں کویت، قطر، عمان اور بحرین کی جانب سے مکمل خاموشی رہی۔
یادر رہے کہ ایک سو ارب ڈالر کی سالانہ تجارت کے علاوہ 70 لاکھ سے زاید بھارتی خلیجی عرب ریاستوں میں موجود ہیں۔ گویا کہ ہر تیسرا شخص بھارتی ہے۔ اور یہ محض مزدور نہیں، ان میں انجینئر، ڈاکٹر، اساتذہ اور سرمایہ کار بھی شامل ہیں۔ صرف UAE کی بھارت میں سرماریہ کاری 55 بلین ڈالر سے زاید ہے۔موجودہ تجارت اور سرمایہ کاری کے علاوہ سعودیہ اگلے دو برسوں میں بھارت میں 100 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے جا رہا ہے۔ ایسے میں ہم اگر عالم اسلام کو ایک قوم، امت یا اُمّہ کا نام دیکر جسم واحد قرار دیں‘ تو ہماری مرضی، جو خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔ جبکہ یہ مفادات کی دنیا ہے اور قومی مفادات کو اوّلیت حاصل ہے۔ مسلم دنیا کے مفادات جب پاکستان کے ساتھ جڑیں گے، تو سب اسکی طرف لپکیں گے۔ یہی وہ ٹارگیٹ ہے، جسے حاصل کر کے ہم اُمّہ کے علاوہ پوری دنیا میں عزت پا سکتے ہیں۔
اُمّہ عربی زبان کا لفظ ہے جسے اردو میں امت کہا جاتا ہے۔ اور اس کا مفہوم ہے لوگوں کا اجتماع، جسے عرف عام میں قوم بھی کہہ لیتے ہیں۔ مگر اُمّہ قوم سے مختلف اور وسیع تر مفہوم والی اصطلاح ہے۔ قوم ایک سیاسی اکائی ہے، جس کا اپنا نظام حکومت اور مخصوص علاقہ ہوتا ہے۔ جس کے شہریوں میں کسی بھی مذہب اور عقیدے کے لوگ شامل ہو سکتے ہیں۔ جدید اصطلاح میں اسے نیشن اسٹیٹ کہا جا سکتا ہے، مگر جب اُمّہ کی بات کرتے ہیں تو اس کی حدود نیشن اسٹیٹ سے ماوریٰ ہو جاتی ہیں۔ ہر مسلمان بلا تمیز نسل، زبان، وطن، اُمّہ کا رکن ہے، خواہ وہ ستاون مسلم ممالک میں سے کسی ایک کا بھی شہری نہ ہوا اور دنیا کے کسی دوردراز گوشے میں رہائش پذیر ہو۔
اُمّہ کے اس اجتماعی تصور کے ساتھ ایک مرکزی حکومت کا تصور بھی در آیا، جسے خلافت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ جس کی ابتداء حضور جناب رسالتم آبﷺ کی رحلت کے ساتھ ہوئی۔ پہلے چار خلفاء حضرت ابوبکرصدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ، حضرت عثمان غنیؓ اور حضرت علیؓ کو خلفائے راشدین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ خلافت راشدہ کا یہ دور 29 برس (632ء تا 661ئ) پر مشتمل ہے۔ بے شک یہ امت اسلامیہ کا زریں عہد تھا‘ جسے ہم آج تک یاد کرتے ہیں اور نشاۃ ثانیہ کا خواب بھی آنکھوں میں سجائے ہوئے ہیں۔ اس کے بعد مختلف اشکال و ادوار سے گزرتی ہوئی خلافت کی آخری جھلک ترکی کی خلافت عثمانیہ کی شکل میں ملتی ہے۔سولہویں صدی کے اوائل میں قائم ہونے والی خلافت عثمانیہ تین سو برس کے لگ بھگ قائم رہی اور بالآخر مارچ 1923ء میںکمال اتاترک کے ہاتھوں اختتام کو پہنچی۔ اپنے عروج کے زمانے میں ترک خلیفہ کی عملداری کی وسعت کا اندازہ آپ اس سے کر سکتے ہیں، کہ ایک طرف عدن سے لیکر بوڈاپسٹ (ہنگری) اور دوسری جانب بغداد سے لیکر الجیریا تک ان کے نام کا خطبہ پڑھا جاتا تھا۔ مکہ معظّمہ اور مدینہ منورہ سمیت دنیائے اسلام کے مقدس مقامات بھی خلافت عثمانیہ کی عملداری میں شامل تھے۔
پھر ’’ہر کمالے راز والے‘‘ کے مصداق خلافت عثمانیہ کو بھی زوال آ گیا۔ آخری خلیفہ عبدالمجیدثانی کے عہد میں زوال اپنی آخری حدود کو چھو رہاتھا اور ترکی کو یورپ کے مرد بیمار کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ اونٹ کی پشت پر آخری تنکے کا کام پہلی عالمی جنگ نے انجام دیا۔ جنگ کی صف بندی ہوئی تو ترکی جرمنی کے ساتھ تھا اور جرمنی کی شکست کے ساتھ ہی ترکی کی بدبختی بھی شروع ہو گئی۔ یہ وہ موقع تھا جب جدید ترکی کے بانی مصطفیٰ کمال اتاترک منظر عام پر آئے اور وسیع پیمانے پر سیاسی، اقتصادی، تمدنی اور مذہبی اصلاحات کر کے یورپ کے مرد بیمار کو پھر سے صحت مند و توانا بنا دیا۔ خلافت ختم کر کے جدید ترک ریاست کی بنیاد رکھی اور قوم ان کی بے پناہ خدمات کے اعتراف میں انہیں اتا ترک یعنی قوم کا باپ کے نام سے یاد کرتی ہے۔
خلافت عثمانیہ کا خاتمہ باقی دنیا کے لئے نان ایشو تھا کسی نے نوٹس تک نہ لیا۔ مگر برصغیر پاک وہند میں تو گویا ایک سرے سے دوسرے تک آگ سی لگ گئی۔ خلافت کی تحریک نہایت شدومد کے ساتھ چلی۔ جس کی قیادت مولانا شوکت علی اور محمد علی جوہر جیسے زعماء نے کی اور انہیں گاندھی جیسے سرکرہ ہندو رہنما کی اعانت بھی حاصل تھی۔ تحریک کیا تھی،جذبات کا ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا۔ سرکاری اسکولوں، عدالتوں اور ملازمتوں کا بائیکاٹ ہوا۔ سرکاری محاصل اور اسمبلیوں کے انتخابات کا مقاطعہ ہوا۔ سرکار برطانیہ کے عطا کردہ خطابات واپس ہوئے۔ پولیس اور فوج سے علیحدگی کی بات بھی چلی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ علماء کی ایک جماعت نے سرزمین ہند کو دارالحرب قرار دیتے ہوئے فتویٰ صادر فرما دیا کہ مسلمانوںپر دارالسلام کی طرف ہجرت واجب ہو گئی۔ ہزاروں سیدھے سادھے مسلمانوں نے جائیدادیں اونے پونے ہندو بنیاؤں کے ہاتھ بیچیں اور قریبی مسلم ملک افغانستان کا رخ کیا۔ (جاری ہے)