بھارت کی علیحدگی پسند 7 سسٹرز ریاستیں باغی تحریکوں کا مرکز

شہزاد احمد چوہدری
چین اب تک لداخ میں 3 اہم اسٹریٹجک مقامات پر مکمل کنٹرول حاصل کر چکا ہے، جن میں دولت بیگ اولڈی، گلوان ویلی کے اہم حصے شامل ہیں۔ اس عمل کے بعد بھارتی فوج پینگانگ میں فنگرٹو تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ چین نے اس علاقے میں اپنی فوج اتارنے سے قبل اپنے فوجیوں کو مارشل آرٹ کی باقاعدہ تربیت دی تھی، تاکہ وہ لداخ کے سخت ترین موسمی حالات اور بھارتی فوجیوں سے مقابلے کے لئے اپنے آپ کو مکمل تیار رکھ سکیں۔
چین کی جانب سے قبضہ شدہ ان علاقوں میں سے وادی گلوان، لداخ اور اکسائی چین کے درمیان واقع ہے۔ جوکہ یہاں پر اصل کنٹرول لائن (ایل اے سی) اکسائی چین کو بھارت سے جدا کرتی ہے۔ یہ وادی چین کے جنوبی علاقے شن جیانگ  اور بھارت کے علاقے لداخ تک پھیلی ہے۔بھارت کی جانب سے بھی اب اس علاقے میں فوج کی بڑی تعداد کو تعینات کر دیا گیا ہے۔ 
چین کی جانب سے حال ہی میں یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ بھارت وادی گلوان کے قریب سکیورٹی سے متعلق غیر قانونی فوجی تیاریاں کر رہا ہے۔ جس کی وجہ سے مستقبل میں ان دونوں متحارب فریقین میں کوئی بھی سنگین واقع رونما ہو سکتاہے۔ چین کی جانب سے بھی اس علاقے میں فوجی تیاریوں میں مزید اضافہ کیا جارہاہے، حال ہی میں لداخ میں کنٹرول لائن کے قریب چینی فوج کے ہیلی کاپٹر کی کثرت سے پروازیں دیکھنے میں آئی ہیں۔ جبکہ دوسری طرف بھارتی فضائیہ نے بھی اس علاقے میں جنگی طیاروں کے ذریعے پیٹرولنگ کا عمل شروع کر رکھا ہے۔ بھارت اور چین کے درمیان جاری کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے ڈویژنل کمانڈ کی سطح پر ہونے والی مذاکرات مسلسل ناکامی سے دوچار ہو رہے ہیں۔
اس علاقے سے منسلک بھارت اور چین کی سرحدیں ہندوستان کے انتہائی اہم اہمیت کے حامل علاقے سلگری کوریڈور سے ملتی ہیں، جسے چکن نیک کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ چکن نیک کے علاقے میں موجود بھارت کی 7 ریاستوں کی سرحدیں چین، بھوٹان اور نیپال سے ملتی ہیں اور اس خطے کی اہم ریاست سکم ہے، جس کی سرحدیں بیجنگ اور نئی دہلی کو ملاتی ہیں۔ بھارتی ریاست سکم کی سرحدیں چین کے علاقے تبت سے ملتی ہیں۔ سکم کی ریاست بھارت کی آبادی کے لحاظ سے دوسری چھوٹی ریاست ہے، جو کہ انتہائی اسٹریٹجک اہمیت کی حامل ہے۔ چین بھارت کی شمال مشرقی ریاست آندھرا پردیش پر اپنا حق تسلیم کرتا ہے، یہاں پر تبتی نسل کے افراد کی آبادی زیادہ ہے، بھارتی یاتری یہاں سے تبت کے علاقے میں مذہبی عبادات کے لیے جاتے ہیں۔ چین کا موقف ہے کہ بھارتی فوج نے متنازع علاقہ کا اسٹیٹس یکطرفہ طور پر تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس علاقے میں بھارت کی جانب سے بڑھتی خفیہ کارروائیوں اور جارحیت روکنے کے لئے چینی فوج نے زمین دوز بنکر بھی بنانے شروع کر دیئے ہیں، جب کہ وادی گلوان کے اطراف میں چینی اور بھارتی افواج دونوں جانب سے اپنے دفاع کی تیاری میں مصروف ہیں۔ جبکہ چینی افواج خصوصی ٹرکوں کے ذریعے فوجی آلات کی نقل و حرکت میں مصروف ہیں۔ جس کی وجہ کسی بھی وقت دونوں جانب سے ٹکراؤ ہونے کے خدشات بڑھ  رہے ہیں۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ چین اپنی علاقائی خود مختاری کا تحفظ سمیت چین اور بھارت کے سرحدی علاقوں میں امن اور استحکام قائم کرنے کے لیے پر عزم ہے، تاہم بھارتی وزارت خارجہ کی جانب سے کوئی بھی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ اس متنازعہ علاقے سے متعلق چین کا کہنا ہے کہ بھارت وادی گالوان کے قریب دفاع سے متعلق غیر قانونی تعمیرات کر رہا تھا۔ جس پر چینی فوج نے بھارتی فوج کے ایک دستے کو گرفتار بھی کیا تھا، جسے بعد میں رہا بھی کر دیا گیا۔ بھارتی آرمی چیف کی جانب سے کارروائی کو بھارت کیلئے شدید جھٹکا قرار دیا گیا ہے۔
بھارتی میڈیا نے ایسی تصاویر جاری کیں ہیں، جس میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ یہاں چینی مداخلت سے قبل ہندوستانی فوج موجود تھیں۔
بھارت میں کئی ریاستیں ایسی بھی ہیں جن پر اس نے برطانوی راج سے آزادی کے فوری بعد فوجی طاقت کے بل بوتے پر قبضہ جما کر انہیں’’انڈین یونین‘‘ میں زبردستی شامل کرلیا گیا تھا اور پھر اس نے ان علاقوں میں بزور بازو اپنی تہذیب، کلچر، ماحول، تمدن، سوچ و فکر، لٹریچر اور آرٹ و زبان کا نفاذ کرنا چاہا تھا۔ جس پر اسے ان ریاستوں کی جانب سے شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ کیونکہ ان ریاستوں کی اپنی تہذیب، ثقافت، ادب  زبان و طرزِ معاشرت بھارت سے بالکل مختلف ہے۔ 
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور سیکولر ہونے کی دعوے دار بھارت میں اسکے دعوؤں کے برعکس  انسانی حقوق کی پامالی ایک عام سی بات ہے، جوکہ صرف مقبوضہ کشمیر تک محدود نہیں، بلکہ پورا بھارت ہی مذہبی، لسانی اور معاشرتی تعصبات اور ریاستی دہشت گردی کا شکار ہے۔ ہندوتوا کے فلسفے کی پیروکار بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کے تنگ نظری پر مبنی روش کی بنا پر دیکھتے ہی دیکھتے پورے بھارت میں اب تک 70 کے قریب علیحدگی پسند تحریکیں اٹھ کھڑی ہوئیں ہیں۔ عالمی ماہرین ان تحریکوں کو محض بھارت کی اس ریاستی تنگ نظری، فکری گراوٹ، بے حسی اور متعصبانہ رویوں کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔ 
جن کی بنا پر شمال مشرقی بھارت کی سیون سسٹرز (سات بہنیں)کہلا نے والی ان سات ریاستوں جن میں آسام، تریپورہ، ہماچل پردیش، میزورام، منی پور، میگھالیہ اور ناگالینڈ عالمی طور پر بھی باغی تحریکوں کا مرکز سمجھے جاتے ہیں۔ اس کے بھارت کی دیگر ریاستوں جن میں بہار، جھاڑ کھنڈ، چھتیس گڑھ، مغربی بنگال، اڑیسہ، مدھیا پردیش، مہاراشٹر اور آندھرا پردیش میں بھی علیحدگی پسند گروپ سرگرم عمل ہیں۔ لیکن ناگالینڈ کے ناگا باغیوں اور نکسل باڑیوں کی تحریک اب  بھارتی وجود کیلئے حقیقی خطرے کا روپ دھار چکی ہیں۔
ایک معروف بھارتی ٹی وی چینل  کی رپورٹ کے مطابق صرف آسام میں ہی 34 باغی تنظیمیں کام کر رہی ہیں، جو ملک کے 162 اضلاع پر مکمل کنٹرول رکھتی ہیں۔ جن میں یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ، نیشنل ڈیمو کریٹک فرنٹ، کے ماتا پور لبریشن آرگنائزیشن، برچھا کمانڈو فورس، یونائیٹڈ لبریشن ملیشیا، مسلم ٹائیگرز، آدم سینا، حرکت المجاہدین، حرکت الجہاد، گورکھا ٹائیگر فورس، پیپلز یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ سرفہرست ہیں۔ دوسری جانب ایسی ہی تحریکیں ناگالینڈ، منی پو ر اور تری پورہ میں بھی جاری ہیں۔ ناگا لینڈ میں نیشنل سوشلسٹ کونسل سب سے زیادہ موثر ہے، جب کہ منی پور میں پیپلز لبریشن آرمی، منی پور لبریشن ٹائیگرز فورس، نیشنل ایسٹ مائنارٹی فرنٹ، کوکی نیشنل آرمی اور کوکی ڈیفنس آرمی بھارت سے آزادی کی جدوجہد میں مصروف عمل ہیں۔ اسی طرح تری پورہ میں آل تری پورہ ٹائیگر فورس، تری پورہ آرمڈ ٹرائبل فورس، تری پورہ مکتی کمانڈوز اور بنگالی رجمنٹ جدوجہد کر رہی ہیں۔ جبکہ ریاست میزورام میں پروفیشنل لبریشن فرنٹ علیحدگی کی تحریک کو آگے بڑھا رہی ہے۔ 
یہ علیحدگی پسند تنظیمیں جن میں زیادہ تر مسلح تنظیمیں ہیں، ایک سیکولر سٹیٹ کا کچا چٹھا کھول دینے کیلئے کافی ہیں۔ ان عسکری گروہوں میں بیس کے قریب تو ایسے ہیں، جو حقیقت میں بھارتی وجود کو مسلسل کھوکھلا کر رہے ہیں اور وہ وقت دور نہیں جب بھارت ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا۔
علیحدگی کی یہ تحریکیں اس وقت بھارتی حکومت اور ریاست کیلئے بہت بڑا چیلنج بن چکی ہیں۔ ان تحریکوں نے بھارت کے دیگر علاقوں جن میں آندھرا پردیش اور مغربی بنگال شامل ہیں اپنے اثرات مرتب کئے ہیں۔ دوسری جانب بھارت لداخ اور ارونا چل پردیش پر چین کے موقف سے بھی سخت پریشان ہے۔ علیحدگی کی ان تحریکوں نے بھارت کے ریاستی نظام کو بری طرح مفلوج کر رکھا ہے۔
بھارت کے نقشے پر نظر ڈالیں تو شمال مشرق کی جانب سات ریاستوں پر مشتمل پٹی جسے تاریخی طور پر ’’سیون سسٹرز‘‘ یعنی سات بہنیں بھی کہاجاتا ہے۔ ان ریاستوں کو بنگلہ دیش اور بھوٹان نے ڈھانپ رکھا ہے۔ یہ ریاستیں بھارتی ریاست مغربی بنگال کی ایک پٹی کے ذریعے بقیہ بھارت سے منسلک ہیں۔ 
دراصل بھارت ایک کثیرالثقافتی ، کثیر اللسانی اور مختلف مذاہب کاملک ہے۔جو کہ اگرچہ دعویٰ توجمہوریت کا کرتاہے، تاہم اس کے باوجود  وہاں کی مذہبی اقلیتیں سب سے زیادہ مظلوم ہیں۔ دیگر مذاہب سے صرف نظر کر کے صرف ہندومت ہی کو دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ بھارت میں ہندوؤں کی نچلی ذاتیں بھی انتہائی غیر انسانی سلوک کا شکار ہیں۔ اگرچہ اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کی تنظیمیں ان کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتی رہی ہیں، تاہم اس کے باوجود ان کی شنوائی کہیں نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کے اچھوتوں نے بھی ’’دی دلت فریڈم نیٹ ورک‘‘ کے نام سے آزادی کی تحریک شروع کر ر کھی ہے۔
اس تناظر میں عالمی میڈیا کا بھی ماننا ہے کہ بھارت عسکریت پسندی کی وجہ سے اس وقت سب سے زیادہ غیر محفوظ ملک بن گیا ہے۔ جہاں 317 عسکری کیمپ کام کر رہے ہیں۔ گویا کہ عملی طور پر اب عراق و شام کے بعد بم دھماکوں اور ہلاکتوں کے لحاظ سے تیسرا بڑا ملک بن چکا ہے۔ عالمی میڈیا پر شائع ہونے والی رپورٹوں کے مطابق بھارت میں ماؤنواز باغیوں، تامل علیحدگی پسندوں، خالصہ تحریک اور کشمیری مجاہدین سمیت آزادی کی دیگر تحریکیں بھی عروج پر ہیں۔ جس کے سبب علیحدگی پسندوں کی قوت میں بتدریج اضافے کے بعد بھارت کے 2025 تک کئی ٹکڑوں میں بٹنے کے امکانات حقیقت میں بدل سکتے ہیں۔
ان حالات میں بھارت کیلئے اندرونی خلفشار سب سے بڑا خطرہ ہے۔ دوسری جانب ہندو انتہا پسند تنظیموں نے بھی بھارت میں تربیتی کیمپ کھول رکھے ہیں۔ شیوسینا، راشٹر یہ سیوک سنگھ اور بجرنگ دل کے مظالم اور اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی وجہ سے ہی حریت اور علیحدگی پسندی کو تقویت ملی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کی مقبوضہ اور حقوق سے محروم ریاستوں میں مظلوم اقلیتوں نے علیحدگی اور آزادی کی راہ چن کر منزل کی جانب سفر جاری و ساری رکھا ہوا ہے۔
بھارت سے علیحدگی یا آزادی کی جب بھی کوئی تحریک سر اٹھاتی ہے، تو بھارتی فوج تمام جائز و ناجائز ذرائع اور ظلم و جبر کے تمام حربے استعمال کرتے ہوئے اسے کچل دیتی ہے۔ جن میں بے گناہ لوگوں کو قتل کر دیا جاتا ہے اور ان کی جائیداد و املاک کو نذر آتش کردیا جاتا ہے، بھارتی افواج کی جانب سے اس دوران خواتین کی عصمتیں پامال کرنے میں کوئی شرم اور جھجھک محسوس نہیں کی جاتی۔ جبکہ اس دوران نوجوانوں کو گرفتار کر کے بغیر مقدمہ چلائے جیلوں اور عقوبت خانوں میں ڈال دیا جاتا ہے، جہاں سے اکثر وہ کبھی بھی واپس اپنے گھروں تک نہیں پہنچ پاتے۔

ای پیپر دی نیشن