قصاص میں زندگی ہے

ہر گلی، ہر محلے ، ہر علاقے اور ہر شہر سے ایسی خبریں تسلسل سے آرہی ہیں کہ زندگی پر جہنم کا گماں ہونے لگا ہے ۔ کراچی کی پانچ سالہ مروہ کا پھول سا چہرہ مسل دیا گیا ۔ وہ مروہ جسے ’’شعائر اللہ‘‘ سے تعبیر کیا گیا ۔ جس کی پاکیزگی پر شبنم کے کنوارے قطرے رشک کرتے تھے جس کی آنکھوں کی چمک دیکھ کر آسمان کے تارے خجل ہوجاتے تھے۔ جس کا دل بہلانے کیلئے ربِ ذوالجلال نے تتلیوں کے پروں پر پھول کاڑھے۔ جو ایک ویران اور سنسان گھر میں بارانِ رحمت بن کر نازل ہوئی ۔ جس کی مسکراہٹ کلیوں کو تبسم عطاکرتی رہی اور جس کاکرب بلبل کے ترنم سے عیاں ہوتا رہا ۔ جس کے بہیمانہ اور وحشیانہ قتل پر ساکنانِ عرشِ اعظم لباسِ سوگ زیبِ تن کیے ہوئے ہیں اوران کی بارگاہِ اقدس میں پہنچ کر مروہ چیخ چیخ کر پکار رہی ہے :
بأی ذنب قتلت ؟ مجھے کس جرم میں قتل کیا گیا؟؟ 
گوجرانوالہ کے محلہ نذیر پارک کی بارہ سالہ بدقسمت لڑکی کی داستان کراچی کی مروہ سے مختلف اس لیے ہے کہ اسے ابھی مزید اذیت سہنے کیلئے زندہ رہنے دیا گیا ہے ۔ اس کو زندہ درگور کر کے اسکی سانسوں کا تسلسل برقرار رکھا گیا ہے تاکہ وہ سسک سسک کر جیے ۔ اپنے بال نوچے اور سینہ پیٹے ۔ اسے منوں مٹی کے نیچے دفن نہیں کیا گیا بلکہ باپ کی بے بسی، بھائی کی آنکھوں کی سرخی اور ماں کے گہرے سکوت کے بارِ گراں تلے دفنا دیا گیا ہے ۔ مردان کی اسماء کے ساتھ برپا ہونے والی قیامت کو صدیاں گزر گئی تھیں اور ننھی زینب کا قاتل بھی پھانسی لگ چکاتھا۔ یہ واقعات چونکہ قوم اورقوم کے ٹھیکیداروں کے ذہنوں سے محو ہوچکے تھے اور اس جہنم کی آگ ٹھنڈی پڑچکی تھی لہذا اس آگ کو سلگانے اور ایندھن فراہم کرنے کیلئے آئے روزبغیر کسی تعطل کے اس طرح کاالاؤدہکایا جارہا ہے اوراس آتش کدے کی حدت میں شدت لانے کیلئے ہرگلی، ہر محلے، ہر شہر اورہر علاقے کی مروہ ، اسماء اور زینب کا زنا بالجبر کے بعد قتلِ عام جاری ہے ۔ 
9ستمبر کی شب لاہور سے براستہ موٹر وے گوجرانوالہ جانے والی عقل کی قیس کو جہنم کی ہولناکیوں کانظارہ ہوا۔اسکے تین بچوں کے سامنے اسکے وجود کے بخیے ادھیڑے گئے۔ وہی وجودجس کی خاک سے ان بچوں کی خاک کی نمودہوئی تھی ۔ وہ سیہ نصیب اس جہانِ خراب آباد کوحاکمِ شہر کا کہا درست مان کر ریاستِ مدینہ سمجھ بیٹھی تھی لیکن اسے کیا خبر تھی کہ وہ ریاستِ مدینہ نہیں ، نارِ جحیم کے کھولتے ہوئے سمندر میں غوطہ زن تھی۔ اس سمندر کا قعرِ مذلت اتنا عمیق ہے کہ کئی نسلوں کا سفر بھی اسے گجر پورہ سے لاہور واپسی کا سفر طے نہیں کراسکتا۔ 
کہا جارہا ہے کہ مجرموں کاسراغ ہاتھ آگیا ہے ۔ایک ملوث مجرم کی گرفتاری کو کارنامہ بنا کر میڈیا کی زینت بنایا جارہا ہے۔ دوسرے مفرور کی تلاش کا عمل جاری ہے اور اسے ایک چیلنج کے طور پر پیش کیا جارہا ہے ۔اسکی گرفتاری سے گویا دوزخ کی آتش بجھ جائیگی اور راوی چین ہی چین لکھنا شروع کر دیگا۔ دل کے بہلانے کوغالب یہ خیال اچھا ہے لیکن صورت احوالِ واقعی اس کے قطعی برعکس ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہاں ہر طرف عابد، شفقت اور عمران منڈلا رہے ہیں ۔ کوئی سنسان گلی ہو یا انار کلی کا ہجوم، بازار ہو یاعبادت کدہ، کسی پیر کا آستانہ ہو یا کوئی دانش کدۂ علم وحکمت۔ ہر جگہ عابد اور شفقت جیسے وحشی درندوں کا راج ہے ۔ یقین نہیں آتا تو تھوڑا عرصہ قبل گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسمٰعیل خان میں صدر شعبۂ علوم اسلامی کی دست درازیوں کی ویڈیو دیکھ لیجیے۔ ’’پارسائی پر بھی آفت آگئی‘‘ والی داستان طویل عرصے سے دہرائی جارہی تھی کہ موصوف رنگے ہاتھوں پکڑے گئے۔ یہ وہ واقعات ہیں جو باہمت خواتین کی جرأت و ہمت کے صدقے بے نقاب ہوئے ہیں ورنہ لاتعداد حادثات جنم لینے کے فوری بعد داخل دفترکردیے جاتے ہیں ۔ 
  حسبِ روایت بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے موسمی مینڈک بھی باہر نکال آئے ہیں اور پوری ڈھٹائی سے ہر جگہ مجرم کے ’’انسانی حقوق‘‘ کا راگ الاپتے پھر رہے ہیں ۔ جس انسان کے حقوق پامال ہوئے ، جس کے وجود کو کچلا گیا، جس کو کسی ناکردہ گناہ کی عبرت ناک سزا دی گئی ، جس سے اسکی عزت، پاکیزگی، تقدس ، اعتماد اور وقار کو چھین لیا گیا، اسکے دکھ کا مداوا کون کریگا؟ اسکے درد کی دو ا کیا ہے ؟ اسکے زخموں کا مرہم کس کے پاس ہے؟ اسکے بھی کوئی انسانی حقوق ہیں یا نہیں ؟ کیاانسانی حقو ق کے علمبردار ربِ ذوالجلال سے بہتر انسانی نفسیات کا ادراک رکھتے ہیں؟ کیا یہ خالقِ ارض و سماء کی بتلائی ہوئی سرمدی تعلیمات سے زیادہ بہتر حیات ِ انسانی کے رموزوغوامض سے آشنا ہیں ؟ نہیں ، یقینا نہیں ۔ 
دلیل یہ تراشی جاتی ہے کہ مجرمانہ نفسیات کے پروان چڑھنے میںوالدین کی تربیت، معاشرتی رویے اور ریاست کی منصوبہ بندیوں سمیت بہت سے عوامل کارفرماہوتے ہیں ۔ مجرم اگر جرم کرتا ہے تو اس کی ذہنی صحت کا مکمل جائزہ لیاجاناچاہیے ۔ ماہرین نفسیات کو اپنی ہنر کاریوں کے ذریعے جرم کاکھوج لگانا چاہیے۔ ان تمام تر عوامل کے ہوتے ہوئے جرم یا گناہ کی سزا صرف مجرم کو دینا درست نہیں کیوں کہ وہ تنہا اس سب کا ذمہ دار نہیں ہوتا ۔ لہذا جرم کی سزا سناتے وقت اس کے بنیادی انسانی حقوق کا خیال رکھاجاناچاہیے۔ یہ دلیل بظاہر جتنی خوش نما اوروزنی دکھائی دیتی ہے ، دراصل اتنی ہی بودی اور کمزور ہے ۔ بنیادی سا سوال یہ ہے کہ جس بے گناہ عورت کے ساتھ قیامت برپا ہوئی، جس معصوم دوشیزہ کے ارمانوں کوکچلا گیا ، جس ماں کو اسکے بچوں کے سامنے عبرت بنادیا گیا، جس کے بچے عمر بھر اس حادثے کے شدیدترین اثرات سے نکل نہیں پائیں گے ان کا کیا قصور ہے ؟ انھیں کس جرم کی سزا د ی گئی ؟ وہ کس غلطی کی قیمت چکارہے ہیں ؟ ان کے انسانی حقوق کہا ں ہیں ؟ وہ بھی انسان ہیں کہ نہیں؟ یا انسانیت کے معیار پر صرف عابد، شفقت اور عمران جیسے اوباش پورے اترتے ہیں ؟  یہ خوامخواہ کا خلطِ مبحث پیداکر کے لوگوں کو کنفیوز کیاجانا چہ معنی؟
جیسے مریض کی شفایابی کیلئے مسیحائی ضروری ہے ویسے ہی جرم کی روک تھام کیلئے سزاؤں کا تعین بھی ناگزیر ہے ۔ فرض کریں اگر بیمار ہونے کاڈرنہ ہوتوکون شخص پرہیز کریگا؟اگر فیل ہونے کاخطرہ نہ ہو توکون طالب علم محنت کریگا؟ اگراحتساب کاپھندا نہ ہو تو کون ہیراپھیری سے ٹلے گا؟ اگر جرمانے کا قانون نہ ہو توکون ٹریفک کے اشاروں کو خاطر میں لائے گا؟ ظلم بھی ہو اور امن بھی رہے، آئے روز زنا بالجبر، قتل وغارت گری اور وحشت ودرندگی کی سفاک وارداتیں ہورہی ہوں اور دوسری طرف جرم کرنے والے عناصر کو کسی کاڈر خوف نہ ہوتوجرائم کا یہ سلسلہ طویل سے طویل تر ہوتاچلاجائیگا ۔ لہذا اس چلن کو روکنے کیلئے اس سیلاب کے آگے بندباندھنے کیلئے اور جرائم کی روک تھام کیلئے کڑی سے کڑی سزاؤں کا تعین ناگزیر ہے ۔ 
رشی کے فاقوں سے ٹوٹانہ برہمن کا طلسم 
عصا نہ ہو تو کار ِکلیمی ہے بے بنیاد 
یہ بات درست ہے کہ صرف سزائیں دینے اور مجرموں کو اُلٹالٹکاتے رہنے سے جرائم میںمستقل کمی نہیں آتی ۔ اس کیلئے ہمیں دیگر عوامل کا بھی جائزہ لینا چاہیے۔ جب تک ہم جرم کی نفسیاتی، معاشرتی اور اخلاقی وجوہات کا جائزہ لیکر ان کا تدارک نہیں کریں گے ، جرم کبھی ختم نہیں ہوگا۔ اس طرح کے قبیح اخلاقی اور نفسیاتی جرائم کے پیچھے یقینابہت سی وجوہات ہیں ۔ ان میں سرِ فہرست جاہل عوام کے ہاتھ میں موبائل فون کا آجانا ہے ۔ ایک شخص جس کوموبائل فون کے استعمال کا شعور ہی نہیں ، اس سے کیا توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اسکے ذریعے اپنی سوچ کی آبیاری کریگا یااپنے ہی ذہن کو جہنم بنا ڈالے گا؟ ہم ایک طرف اسلامی سزاؤں کے نفاذ کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف ہر طرح کی مادر پدر آزادی کاتقاضابھی درست سمجھتے ہیں ۔ ان دوچیزوں کا ایک ساتھ چلنا قطعی محال ہے ۔ ریاست مدینہ میںبھی احکامات کا نفاذ ایک تدریجی طریقے سے ہوا۔ہمارے ہاں بھی یہ ممکن نہیں کہ جنسی بے راہ روی کے اس دور میں صرف سزاؤں کا نفاذ مسئلے کا حتمی حل ہو۔ اس وبا کو جڑ سے ختم کرنے کیلئے ہمیں اپنے تعلیمی اور تربیتی نظام کو بہتر بناناہوگا۔ ہمارے علماء ومبلغین کو تاریخی جھگڑوں سے فرصت نکال کراصلاحِ معاشرہ میں کردار ادا کرنا ہوگا۔ اسی طرح میڈیاکو نہایت ذمہ دارانہ کردار اداکرنے کی ضرورت ہے ۔ مرچ مسالہ لگاکر خبریں تو بیچی جاسکتی ہیں لیکن عوام کو شعور نہیں دیاجاسکتا۔ والدین کو بھی حالات کی نزاکت سمجھتے ہوئے اپنے بچوں کی ہر پل خبر رکھنی چاہیے۔ ایک لمحے کی خطاکسی بڑی تباہی کا پیشِ خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔ 
ان اقدامات سے ہرگز یہ نہ سمجھا جائے کہ مجرموں کے ساتھ نرمی کی گنجائش ہے ۔ جرم کی روک تھام کیلئے سخت سزاؤں کا ہونا ناگزیر ہے۔ اس لیے کہ خدائے بزرگ و برتر نے واضح انداز میں قصاص کوعین زندگی قرار دیا ہے ۔ قصاص ہی سے مجرمانہ ذہنیت رکھنے والوں کو عبرت حاصل ہوتی ہے لیکن محض قصاص یادیگر سزاؤں پر اکتفا کرنا مسئلے کا حل نہیں ۔ ہمیں اپنے نظامِ تربیت اور سماجی اداروں کے کرادر کو بھی بہتربناناہوگا۔ 
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن