معاہدہ ابراہیم پاکستانی دانش کا شاہکار 

Sep 16, 2020

محمد اسلم خان....چوپال

مغربی ماہرین کا دعوی ہے کہ ’یواے ای‘ کے اسرائیل سے تعلقات تو پہلے سے ہی استوار تھے۔ امریکہ کے ذریعے یہ تعاون جاری تھا۔  یروشلم کے رہائشی فادرڈیوڈ نیوہاس کے مطابق ’’تعلقات تو کئی سال سے بحال ہوچکے تھے لیکن اب ان کا اعلان کیا گیا ہے اور انہیں ’امن پیکج‘ کی صورت میں پیش کیاجارہا ہے حالانکہ یہ محض تعلقات کی بحالی ہے۔‘‘ ان کے مطابق ’’یو۔اے۔ای اس راستے پر پہلا ملک ہے لیکن آخری نہیں۔ وقت کے ساتھ مزید ممالک بھی اس معاہدے میں حصہ دار بنتے جائیں گے۔‘‘
یہودی راہبوں کو دعوتیں، بین المذاہب کمپلیکس کی تعمیر، اسرائیل اور یہودی ماڈلز کے صحرائے عرب میں مشترکہ شوٹنگ کے واقعات چند مثالیں ہیں۔ 2019 میں ہی یواے ای کے پہلے یہودی چیف راہب کا تقرر اہم پیش رفت کے طورپر دیکھا گیا۔ اسی سال دوبئی میں منعقدہ نمائش میں اسرائیل نے شرکت کا اعلان کیا۔ کورونا میں اسرائیل نے امدادی سامان بھجوایا۔ 40چھوٹے چھوٹے جزیروں سے مل کر بنا بحرین 25 کلومیٹر طویل ایک پل کے ذریعے سعودی عرب سے جڑا ہے جسے ’شاہ فہد کاز وے‘ کہاجاتا ہے جسے رات کو کسی خیمے کی طرح طے کردیاجاتا ہے اور آمدو رفت معطل ہوجاتی ہے۔ یہ قطر اور سعودی عرب کی شمال مشرقی ساحلی پٹی کے درمیان واقع ہے۔ 2010 کی مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی بارہ لاکھ ہے جس میں سے نصف غیرمقامی باشندے ہیں۔ مالدیپ اور سنگا پور کے بعد یہ ایشیاء میں تیسرا سب سے کم آبادی والا ملک ہے۔ مچھیروں کی سرزمین اس کی ماضی کی پہچان تھی۔ اول اول مسلمان ہونے کا شرف بھی یہاں کے لوگوں کو حاصل ہوا۔ نبی اکرم ؐکے دور میں مختصر عرب حکمرانی کے بعد یہاں1521 سے 1602 تک پرتگالی بادشاہ کی حکومت رہی۔ پھر صفوی حکمران شاہ عباس اول کا علم لہراتا رہا۔ 1783 میں بنی عتبہ قبیلے نے بحرین پر قبضہ کرلیا اور اس وقت سے آل خلیفہ شاہی خاندان یہاں حکمران ہے۔ 
اقوام متحدہ کے معاشی سماجی کمشن برائے مغربی ایشیاء کی رپورٹ کے مطابق عرب دنیا میں سب سے تیزی ترین معاشی ترقی کرنے والا ملک بحرین ہے۔ مشرق وسطی میں سب سے آزادانہ معیشت رکھنے والا یہ ملک ہے۔ آزادی میں جدید دنیا کے سارے مطلب ہی پنہاں ہیں۔ 2008 میں یہاں اسی لاکھ سے زائد سیاح آئے تھے۔ سیاحوں کی زیادہ تعداد آس پاس کی عرب ریاستوں سے سیروتفریح کے لئے یہاں آتی ہے اور پرلطف راتیں اور دن گزارتی ہے۔ 
اب کچھ بات اسلامی دنیا کے ’’ارطغرل‘‘ کی ہوجائے۔ ترکی اور اسرائیل میں باضابطہ تعلقات کا آغاز مارچ 1949 میں ہوا تھا۔ یہ اسلامی دنیا کا پہلا سپوت تھا جس نے ’ناجائز ریاست‘ کو تسلیم کیا۔ فوجی، سٹرٹیجک اور سفارتی تعاون کو ترجیح ملی اور پھر فوجی مشقوں سے لے کر گیس پائپ لائن تک ہر شعبے میں ’ہاتھوں میں ہاتھ، میں سجنا کے ساتھ‘والی کیفیت رہی۔ اس وقت ہمارے عرب بھائی اسلامی غیرت وحمیت کی علامت بنے ہوئے تھے۔ 1999 میں نیویارک ٹائمز نے لکھا تھا کہ ترکی اور اسرائیل کی ’سٹرٹیجک پارٹنر شپ‘ میں اتنی قوت ہے کہ مشرق وسطیٰ کی سیاست پلٹ سکتی ہے۔ اسرائیلی فوجی طیاروں کے ہوا باز اپنی مشق ترکی میں کرتے، تجارت اور سیاحت کا جادو سرچڑھ کر بول رہا تھا۔ 
رجب طیب اردوان کو 2005 میں اسرائیل کے سرکاری دورے کی ’سعادت‘ نصیب ہوئی جہاں انہوں نے ’اسرائیل فلسطین تنازعے میں کردار ادا‘ کرنے کی امید ظاہر کی تھی۔ 2008-9 میں غزہ کی جنگ اور 2010 میں غزہ فلوٹیلا پر حملے کے بعد تعلقات میں خرابی آئی۔ مارچ2013 میں اسرائیل نے معافی مانگ کر تعلقات کی بحالی کا پھر راستہ کھول دیا۔ اکتوبر 2013 میں ایران میں اسرائیل خصوصی ایجنٹ کے حوالے سے پھر تنازعہ پیدا ہو جس پر دسمبر2015 میں ترکی اور اسرائیل کے خفیہ مذاکرات ہوئے تاکہ سفارتی تعلقات بحال ہوجائیں۔ 27 جون2016 کو معاہدہ ہو اور ’پرنالہ وہیں آگیا جہاں تھا۔‘ دسمبر2017 کو یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے یک طرفہ فیصلے پر اردوان صاحب نے اسرائیل سے تعلقات ختم کرنے کی دھمکی دی جس پر آج کی تاریخ تک عمل نہیں ہوا۔ 
خلیج تعاون کونسل کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر نایف الحجرف نے بیان جاری کیا کہ ’’تنازعہ فلسطین کے حوالے سے کونسل کے رکن ممالک کے خلاف غلط فہمیاں پیدا کرتے ہوئے ان کے خلاف نفرت انگیز مہم ناقابل قبول ہے۔ فلسطین کی بعض تنظیموں کی طرف سے کونسل کے کچھ رکن ملکوں کے خلاف منظم انداز میں منفی پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے اور ان کے تنازعہ فلسطین کے حوالے سے دیرینہ، تاریخی اور اصولی موقف کو توڑ مروڑ کو پیش کرکے غلط فہمیاں پیدا کی جا رہی ہیں۔‘‘ 
یہ ساری تفصیل پڑھ کر کیا یہ کہاجاسکتا ہے کہ اسرائیل پر اسلامی دنیا کا موقف کچھ الگ ہے؟  (ختم شد) 

مزیدخبریں