ویسے تو سیاپا ڈالنے کا کام اپوزیشن کا ہوتا ہے مگر یہ کریڈٹ پاکستان تحریک انصاف کو جاتا ہے کہ وہ خود کو آئے روز کسی نہ کسی سیاپے میں مشغول رکھتی ہے.
آج کل کنٹونمنٹ بورڈ کے الیکشنز، حکومت کی جانب سے (پی ایم ڈی اے) پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا مجوزہ مسودہ، (ای وی ایم) الیکڑانک ووٹنگ مشین پر حکومتی اراکین اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کا تکرار، ان سب چیزوں کے ساتھ ڈالر کی اونچی اڑان، پٹرولیم مصنوعات میں اضافے کا سیاپا زیرِ بحث ہے. پہلے کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات کی بات کرتے ہیں . ملک کے اکتالیس کنٹونمنٹ بورڈز کے 218 وارڈز میں پاکستان تحریک انصاف 63, پاکستان مسلم ن 59 جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی 17 امیدواروں کے ساتھ کامیاب ہوئی. پنجاب میں ن لیگ کی جیت نے پارٹی میں زندگی کی روح پھونک دی ہے اور اس جیت کے ساتھ پارٹی قیادت اور کارکنان کو امید کی ایک کرن نظر آئی ہے. حکومتی کارکردگی اگر ایسی ہی رہی تو ن لیگ کیلئے آئندہ انتخابات میں جیتنا بہت آسان ہو گا. پنجاب میں کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات میں سب سے حیران کن بات آزاد امیدوار کا جیتنا ہے. یقیناً یہ وہی لوگ ہونگے جو علاقے کے لوگوں کے مسائل حل کرنے میں پیش تر ہونگے انکی باتوں کو سنتے ہونگے انکے دکھوں کا مداوا کرتے ہونگے انکی خوشیوں میں شریک ہوتے ہونگے. حکومتی جماعت ہونے کے باوجود پی ٹی آئی کیلئے پنجاب راندۂ درگاہ ثابت ہوا. البتہ مجموعی طور تمام صوبوں میں پی ٹی آئی نے سیٹیں لیں اور ملکی جماعت بن کر سامنے آئی لیکن پنجاب میں ہارنا پی ٹی آئی کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے.دوسرا سیاپا جس نے ملک میں ادھم مچایا ہوا ہے وہ پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا ہے. تقریباً تمام صحافی برادری اس مجوزہ بل کے خلاف سراپا احتجاج ہے. وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری بارہا کہ چکے ہیں کہ یہ بل جھوٹی اور من گھڑت خبروں کو کنٹرول کرنے کیلئے ہے. ہم آئے روز دیکھتے ہیں کہ کس طرح بعض صحافی ایسی خبریں شائع یا نشر کرتے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔تو ایسے میں اگر حکومت کوئی ایکشن کرنا چاہتی ہے تو اس پر بات ہونی چاہئے اور میڈیا کے مالکان یا ورکرز اس مجوزہ بل پر جو بھی تحفظات رکھتے ہیں اس پر بھی حکومت کو انھیں ہر صورت سننا چاہئے تا کہ اس بل کی آڑ میں آزادی اظہار رائے پر قدغن نہ لگائی جا سکے. پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 19 ہر شخص کو آزادی اظہار رائے دیتا ہے. بہر حال اس سیاپے کو حکومت نے ایک دو ماہ کیلئے ملتوی کر دیا ہے تا کہ میڈیا اراکین سکھ کا چین لیں اور انکے احتجاج و دھرنے حکومت کیلئے مصیبت نہ بن سکیں۔ حکومت بالخصوص فواد چوہدری کو وزیر اطلاعات ہونے کی حیثیت سے میڈیا سے نرم رویہ و مزاج رکھنا چاہیے. میڈیا کا کام ہے ہی تند و تیز سوالات کرنا جبکہ حکومت کا کام صبر و تحمل سے جواب دینا ہے. تیسرا سیاپا الیکشن کمیشن آف پاکستان اور حکومتی اراکین کی تکرار ہے.الیکشن کمیشن اور حکومت کے درمیان اختلاف کی سب سے بڑی وجہ آئندہ انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کا معاملہ ہے۔
وفاقی حکومت الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کے حق میں ہے جبکہ الیکشن کمیشن نے عام انتخابات میں اس ووٹنگ مشین کے استعمال پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ ای وی ایم کے استعمال سے بھی الیکشن شفاف ہونے کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی کیونکہ اس مشین کے سافٹ وئیر میں کسی بھی وقت تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔الیکشن کمیشن اس ضمن میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے بارے میں 37 اعتراضات پر مبنی نوٹ سینیٹ میں پارلیمانی امور کی قائمہ کمیٹی کو بھجوا چکا ہے. وفاقی وزیر برائے ریلوے اعظم سواتی نے الیکشن کمیشن پر پیسے لینے اور غیر شفاف انتخابات کروانے کے الزامات لگائے ہیں. وفاقی وزیر نے یہاں تک کہا کہ ایسے ادارے کو آگ لگا دینی چاہیے۔اس پر الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ جن افراد نے اس ادارے پر الزامات عائد کیے ہیں وہ ثبوت بھی پیش کریں،اگر وفاقی وزرا الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر کے خلاف لگائے گئے الزامات کے ثبوت فراہم نہ کرسکے تو آئین کے آرٹیکل 63 ون جی کے تحت توہین عدالت کے قانون 204 کے تحت ان کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انھیں قصور وار قرار دیا جا سکتا ہے۔چیف الیکشن کمشنر کے پاس وہی اختیارات ہوتے ہیں جو کہ سپریم کورٹ کے جج کے پاس ہیں۔ اگر ان وزرا کو توہین عدالت کے جرم میں مجرم گردانا گیا تو پھر ان کی اگلے پانچ سال کے لیے نااہلی ہو سکتی ہے اور وہ اس عرصے تک انتخابات میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔بہرحال اس سیاپے کو حکومت کو دانشمندی سے سلجھانا چاہیے. وگرنہ حکومتی اراکین کو لینے کے دینے نہ پڑ جائیں. آخر میں سب سے اہم سیاپا وہی ہے جس سے پورا پاکستان تنگ ہے۔پڑولیم مصنوعات میں اضافے اور ڈالر مہنگا ہونے پر عوام اب غم و غصہ کرنے کی بجائے حکومت کا مذاق بنا رہے ہیں۔خدارا عوام پر رحم کریں اور مہنگائی کا نوٹس سخت لیں۔