سکردو نیلے پانی اور بلند پہاڑوں کے ساتھ ایک خوبصورت وادی ہے جس کی ایک اپنی تاریخ رہی ہے یہاں پر بسنے والے لوگ پہلے آتش پرست تھے پھر بدھ مت مذہب کو ماننے لگے اور پھر مسلمان ہوئے۔ سکردو میں آج بھی ایک الگ دنیا ہے۔ جس کو ایک بار پھر دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ جب اسلم سحر کی دعوت پر ایک مذہبی کانفرنس میں شمولیت کا موقع ملا۔ اس کانفرنس میں ہر نقطہِ فکر سے اور ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے عالمی شہرت یافتہ لوگ موجود تھے۔ اس کانفرنس کا انعقاد گزشتہ 29 برس سے کیا جا رہا ہے۔ سیاست سے یاد آیا کہ سکردو کے جانے مانے سیاستدان مہدی شاہ صاحب سے بھی ملاقات ہوئی۔ مہدی شاہ کو سکردو کے پہلے وزیر اعلیٰ ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔
اب سیاست سے واپس آتے ہیں سکردو کی وادی میں۔ جیسے کے میں نے اپنے کالم کے شروعات میں ہی لکھا کہ سکردو ایک الگ ہی دنیا ہے۔ اور یقین مانیئے یہاں دنیا بڑے شہروں کی نسبت زندگی سے بہت خوبصورت ہے۔ جس کا اندازہ تو ہوائی جہاز سے اُترتے ہی ہمیں ہو گیا۔ جب ائر پورٹ کے چاروں اور نظر دہرائی ۔ کیونکہ سکردو ائر پورٹ ہے جسکے چاروں طرف بلند اور خوبصورت پہاڑ ہیں اسکے ساتھ یہاں دنیا کا واحد سرد صحرا موجود ہے۔ یہ صرف شہر ہی نہیں بلکہ یہاں پر بسنے والے لوگ بھی دلچسپ اور خوبصورت ہیں۔ مردوں کی نظروں میں عورتوں کیلئے شرم لحاظ اور عورتیں اپنی حد اور آزادی کا جائز استعمال کرنا بلاخوبی جانتی ہیں۔ اسی لیے نہ وہاں یہ مینارِ پاکستان جیسے واقعات ہوتے ہیں اور نہ عورتوں کو عورت مارچ کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ سکردو میں بسنے والے باسیوں کی بات ہو اور کوہ پیمائوں کا ذکر نہ ہو ایسا تو ممکن نہیں۔ جن میں حسن سدپارہ اور علی سدپارہ شامل ہیں۔ علی سدپارہ کا ذکر پہلے بھی ایک کالم میں کر چکی ہوں لہٰذا جب سکردو پہنچتے ہی پہلی خواہش محمد علی سدپارہ کے گائوں جانے کی ہوئی۔ لہٰذا ہم سدپارہ گائوں کی طرف چل پڑے ۔ سدپارہ سرجھیل کے خوبصورت نظارے کرتے ہوئے علی سدپارہ کے گائوں پہنچے۔ اس گائوں میں تین چار سو خاندان بستے ہیں۔ اس چھوٹے سے گائوں سے تعلق رکھنے والا علی سدپارہ بہادری اور ہمت کی ایک مثال تھا۔ جس نے نانگا پربت کو پہلی بار سردیوں میں سر کر کے ورلڈ ریکارڈ بنایا۔ سدپارہ میں ایسی کئی بہادری کی مثالیں ہمیں ملتی ہیں۔ خیر محمد علی سدپارہ کی یادیں لیے ہم سدپارہ گائوں سے نکل پڑے۔ سکردو میں جہاں دنیا کا واحد سرد صحرا ہے وہاں شنگریلا کے جاذب ریزورٹس بھی ہیں۔ شنگریلا کی بات نکل پڑی ہے تو تھوڑا اس کا بھی تذکرہ ہو جائے۔ شنگریلا جھیل ، سکردو شہر سے بیس منٹ کے ڈرائیور کے فاصلے پر ہے۔ شنگریلا جھیل کی ایک خوبصورتی یہ بھی ہے کہ اسکے کنارے نہایت ہی دلکش ہوٹل ٹورسٹ ریزارسٹ تعمیر کئے گئے ہیں جو یہاں آنیوالے سیاحوں کیلئے بہترین قیام گاہ ہیں۔ شنگریلا ریزارٹ 1983ء میں بنایا گیا اور یہ سکردو بلتستان کا پہلا ریزرٹ تھا۔ اس جھیل کا صاف شفاف پانی ، خوبصورت نظارے اور فرحت بخش موسم سیاحوں کیلئے کسی نعمت سے کم نہیں۔ شنگریلا جھیل دنیا بھر میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ جھیل کے اطراف قدرت کے شاہکار ایسے بکھرے پڑے ہیں کہ پورا علاقہ جنت کا نظارہ پیش کر رہا ہے۔ ملک کے مختلف علاقوں سے گرمی کے ستائے شہری شنگریلہ کے مسحور کن نظاروں سے لطف اندوز ہونے آتے ہیں ہر طرف برفیلے پہاڑ ، ہریالی اور ٹھنڈک سیاحوں کیلئے کسی نعمت سے کم نہیں۔ سکردو میں جا کر اس بات کا اندازہ ہوا کہ ہم نے جتنا سنا تھا سکردو اس سے کہیں زیادہ حسین ہے۔ انسان یہاں آ کر قدرت کے حسن میں ایسا گم ہو جاتا ہے کہ مر بھی جائے تو حیرت نہ ہو۔ وطن عزیز کے انتہائی شمال کی دیومالائی سرزمین گلگت بلتستان کا صدر مقام اسکردو قراقرم کے فلک شگاف پہاڑوں میں گھری ہوئی ایک وسیع و عریض وادی ہے۔ لداخ کے تنگ دروں اور پہاڑوں سے جھاگ اڑاتا شوریدہ سر دریائے سندھ اسکردو پہنچ کر اپنے رتیلے کناروں کے درمیاں یوں پرسکون معلوم ہوتا ہے جیسے تھکاوٹ کے بعد ریت پر پائوں پسارے دھوپ سینک رہا ہے۔ یہاں سے ہی دنیا کے بلند ترین پہاڑوں کے راستے بھی نکلتے ہیں۔ دنیا بھر سے سیاح پہاڑوں کو دیکھنے اور سر کرنے کھنچے چلے آتے ہیں اور کئی انہی برفانی پہاڑوں سے نبرد آزمائی کرتے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ قصہ کوتاہ اگر سکردو کی خوبصورتی اور دلکش نظارے بیان کرتی رہی تو یہ قلم شاید رکنے کا نام نہیں لے گا۔
سکردو میں گزرے محض 24 گھنٹے میری زندگی کے وہ حسین اور پرسکون وقت تھا جس کو شاید لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں اور اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ وہ شہر آج بھی دنیا کی بھاگ دوڑ سے بہت دور ہے۔ اگر یہاں تک رسائی آسان اور سہولیات کی فراوانی کر دی جائے اور ہمارے سفارتخانے سیاحت کے حوالے سے متحرک کردار ادا کریں تو دنیا بھر کے لوگوں کو سکردو جیسی جنت نظیر وادیوں کی جانب راغب کر کے بھاری زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔