کنٹونمنٹ بورڈ کے ووٹروں کا رجحان خطرے کی کھنٹی

میاں غفاراحمد

کنٹونمنٹ بورڈز کے زیرانتظام علاقے پی ٹی آئی کا گڑھ سمجھے جاتے تھے مگر حالیہ بلدیاتی الیکشن میں ان کنٹونمنٹ بورڈز کے ووٹروں نے پنجاب اور کراچی میں جس ردعمل کا اظہار کیا وہ حکمرانوں کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ عوام نے اپنے عدم اعتماد اور غم و غصے کا اظہار ووٹ کے ذریعے کردم دیا ہے لہٰذا حکومت کے پاس جو بمشکل دو سال باقی بچے ہیں ان میں کچھ کرکے دکھانا ہوگا کیو نکہ صرف تین سال میں حکومت نے عوام میں اپنا 23 سال کی محنت سے بنایا گیا مضبوط اور پختہ یقین از خود ہی ضائع کر لیاہے۔ ووٹرز کی ذہن سازی ایک دن میں بنائی یا تبدیل نہیں کی جاسکتی۔ ووٹر سیاسی قیادت نہیں ہوتے اور نہ ہی امیدوار کہ راتوں رات وفاداریاں اور ٹوپیاں تبدیل کر لیں۔ اب اگر کسی کے ذہن میں یہ بات ہو کہ وہ اگلے دو سال میں ووٹرز کی سوچ کو لے آئیں گے تو یہ محض خواب خرگوش سے بڑھ کر کچھ نہیں. لاہور کنٹونمنٹ بورڈز کے ووٹرز نے تو 2018 الیکشن میں عمران خان کو کامیاب کروا کر ہی وزیراعظم پاکستان بنوایا مگر ضمنی الیکشن میں انہی پولنگ اسٹیشنوں پر صورتحال بدل چکی تھی جہاں عمران خان کو ڈھیروں ووٹ پڑے تھے۔ ن لیگ چند ہفتوں بعد ہی ضمنی الیکشن  جیت چکی تھی۔ یہ بات طے ہے کہ 2013 ء اور 2018 کے انتخابات کی طرح حالیہ کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات میں بھی حکمران جماعت سے ٹکٹوں کی تقسیم میں عین اسی طرح غلطیاں ہوئیں اور کئی حلقوں میں ٹکٹوں کی غلط  تقسیم کی وجہ سے کئی حلقوں میں پی ٹی آئی کا مقابلہ پی ٹی آئی سے ہی ہوا۔ اس طرح سے ہونا پارٹی پر کمزور گرفت کا سب سے بڑا ثبوت ہوا کرتا ہے۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کا ایک سوال بہت اہم ہے کہ جس اسٹیبلشمنٹ نے آئی جے آئی بنائی اور بعد میں اس بنے بنائے نیٹ ورک کو میاں نواز شریف کے نام گفٹ کر دیا۔ آج بھی نواز شریف مسلم لیگ ن کی شکل میں گزشتہ 30 سال سے سیاست پر مضبوط گرفت بنائے ہوئے ہیں۔ کم و بیش اسی طرز کی اسٹیبلشمنٹ نے پی ٹی آئی کو گزشتہ چند سال سے ن لیگ سے کہیں بڑھ کر مدد دی اس کے باوجود پی ٹی آئی دس ضمنی انتخابات میں سے 9 کیوں ہار گئی ؟ اس سے مقتدر قوتوں کو بھی سمجھ آ جانی چاہیے کہ مغرب کے وقت کو تو رات کہا جاسکتا ہے یا ڈھلے سورج کو بھی رات کہ لیں  مگر دوپہر کے 12 بجے کو رات کے 12 قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ایک واضح فرق یہ بھی ہے کہ ن لیگ کا پنجاب بہت مضبوط تھا اور ہے بھی مگر موجودہ حکومت کا پنجاب بہت ہی کمزور ہے۔ ن لیگ کا پنجاب مرکز کا ہر حال میں اور ہر ہر موقع پر معاون ثابت ہوتا تھا۔ اب پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت کو  ہی فرنٹ لائن پر پنجاب کی معاونت کرنا پڑ رہی ہے تاہم  اس معاونت سے پنجاب کا مضبوط ہونا تو درکنار الٹا مرکز کے لئے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ آج حکمران یہ سمجھ نہیں پا رہے کہ سرکار کے انتظامی اْمور چہرے نہیں عہدے چلایا کرتے ہیں۔ چہروں میں پسند و ناپسند ہوتی ہے مگر عہدوں میں نہیں۔یہاں پنجاب میں کام عہدوں کی بجائے چہروں سے چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اب پھر سے شنید ہے کہ عہدے ہی تبدیل کیے جارہے ہیں۔ پنجاب میں شاید ہی کوئی محکمہ یا ضلع ایسا ہو جس کا سربراہ تین سال میں پانچ سے دس مرتبہ تبدیل نہ ہو چکا ہو۔ شہباز شریف کی حکومت پر سالہا سال تک اعتراض ہوتا رہا کہ انہوں نے گریڈ 17 کے آفیسر کو پاکپتن میں ڈپٹی کمشنر لگا دیا تھا مگر اب بھی اس طرح سے نوازشات جاری ہیں حتیٰ کہ اب تو چہروں کے مطابق عہدے پیدا کیے جا رہے ہیں اور پھر ان عہدوں پر من پسند تقرریاں بھی۔ ایک بات واضح ہے کہ مرکز کو جب تک پنجاب کی سپورٹ نہیں ملے گی اس وقت تک انتخابی نتائج اس طرح کے ہی رہیں گے۔
ملتان شہر کی سیاست کا ذکر کیا جائے تو اس شہر میں چند ایسی سیاسی تقرریاں ہوئی ہیں جن کے نتائج آئندہ الیکشن میں سامنے  آ جائیں گے۔ 2018ء میں الیکشن میں پی ٹی آئی نے ملتان شہر میں قومی اسمبلی کی تمام نشستیں  جیت لی تھیں، یہ نشستیں وہ کسی بھی طور برقرار نہیں رکھ پائے گی اور یہ سیاسی تقرریاں گھاس کا وہ کیڑا ثابت ہوں گی جو پیدا ہونے کے بعد اپنی ہی ماں کو کھاجاتا ہے۔ جس پر جو الزام تھا اسے اس نوعیت کی سیاسی ذمہ داریاں دے دی گئیں کہ کھل کر کھیلئے آخر انتخابی اخراجات بھی تو ہوتے ہیں۔ یہ تقرریاں انتخابی اخراجات تو شاید پورے کردیں مگر ووٹوں میں نمایاں کمی یا شکست کا باعث ہوں گی کہ آج سوشل میڈیا کے اس دور میں کوئی پردہ باقی نہیں رہا اور مکمل آگہی کے اس دور نے سارے بھرم کھول کر رکھ دیے ہیں۔
ان تبدیل شدہ صورتحال میں اسٹیبلشمنٹ کو عوامی نفسیات سمجھنا ہوگی۔ جنرل ضیاء الحق نے 11 سال پیپلز پارٹی کو کْچلنے میں لگا دئیے مگر 11 سال بعد 1988 کے انتخابات میں اقتدار پیپلز پارٹی ہی لے گئی اور تمام تر کوششوں کے باوجود بمشکل پنجاب میں آئی جے آئی کو اقتدار ملا تو وہ بھی یوں کہ وفاقی اور صوبائی انتخابات میں تین دن کا فرق تھا۔ اور پھر ’’ جاگ پنجابی جاگ تیری پگ نوں لگ گیا داغ‘‘ جیسے نعرے لگے، بھرپور مہم چلائی گئی تو بمشکل نتیجہ تبدیل ہوا۔ تب ایسا بھی ہوا کہ جہاں قومی اسمبلی کی نشست سے پیپلز پارٹی کا امیدوار کامیاب ہوا وہیں اس سے متصل دونو ں صوبائی نشستوں پر آئی جے آئی نے کامیابی حاصل کر لی۔کہیں اس بار بھی وہی کہانی نہ دھرائی جائے اور مسلم لیگ ن ہمدردی کا ووٹ لیجائے کہ شدت کی مہنگائی اور ڈھیلی گرفت کی صورتحال میں عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز کرکے موقع تو حکومت پہلے ہی فراہم کرچکی ہے۔

ای پیپر دی نیشن