قیامِ پاکستان سے آج تک اہلِ پنجاب نے ہمیشہ مفاہمت اور ملی یگانگت کو قائم رکھنے کیلئے بیشمار قربانیاں دیں ہیں یہاں تک کہ اپنی ثقافت، تہذیب اور زبان یعنی کُل ملا کر اپنی مکمل شناخت کو ہی قربان کر دیا۔ مگر اس سب کے بعد جہاں ہم ملی یگانگت اور نئے دور کے تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھال رہے تھے وہیں اپنی ذات اور شناخت کو کھو بیٹھنے کے بعد ہمیں اپنی بے نامی اور بے قدری کا احساس بھی ہونے لگا۔ یہ احساس اس قدر شدید تھا کہ پورے صوبے میں دوبارہ اپنی کھوئی ہوئی پہچان کو حاصل کرنے کی تحریکیں جنم لینے لگیں، مگر اس بار ان تحریکوں کو گورے سامراج کا نہیں بلکہ جدیدیت کے لبادے میں چھپے ہوئے کارپوریٹ دھڑے کا سامنا تھا، جو کسی صورت یہاں کی زبان اور ثقافت کی بحالی کے حق میں نہیں تھا۔ کیونکہ ان کا مقصد انگریزی زبان اور کلچر کو پروموٹ کر کے پیسہ بٹورنا تھا، جہاں لوگوں کے ذہنو ںمیں اپنی زبان اور ثقافت کے خلاف زہر بھر دیا جائے اور اس امر کو تقریباً ناممکن بنا دیا جائے کہ یہاں کے لوگ کسی صورت واپسی کا راستہ اختیار کر سکیں۔ دیکھا جائے تو جدیدیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، نہ دیگر زبانوں سے جن میں خاص طور پر انگریزی زبان شامل ہے، مگر یہ کہیں کا انصاف نہیں کہ ایک معاشرہ بلکہ پورا خطہ اپنی زبان اپنی شناخت کو چھوڑ کر لنڈے کی نیکر پینٹ پہن کر خود کو یورپین سمجھنے لگے۔ آج مشرقی پنجاب میں جہاں جدید تعلیم کی فراوانی ہے وہیں وہ لوگ اپنی زبان اور ثقافت سے جڑے ہوئے ہیں، آج وہاں کی پنجابی فلم انڈسٹری پوری دنیا میں اپنا مقام بنا چکی ہے اور پوری دنیا میں اپنی ثقافت کو فروغ دے رہی ہے، وہیں ملک میں سیر و سیاحت اور اس سے جڑی دوسری صنعتوں کو بھی دوام حاصل ہورہاہے۔ مگر ہمارامعاملہ اسکے اُلٹ ہوتا ہے اور پنجاب کی زبان اور ثقافت کو ہر سطح پر تباہ کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ ایسے میں جب پوری دنیا دہشت گردی اور شدت پسندی سے لڑ رہی تھی 2004ء میں پنجاب کے شیر دل اور یہاں کی عوام کے حقیقی ترجمان اس وقت کے اور موجودہ وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی نے پنجابی زبان، ادب اور ثقافت کو زندہ کرنے کیلئے قیامِ پاکستان کے بعد پہلی بار سرکاری سرپرستی میں ایک نیا ادارہ قائم کیا جسے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف لینگویج ، آرٹ اینڈ کلچر (پلاک ) کا نام دیا گیا، اس ادارے کے اغراض و مقاصد میں جہاں پنجابی زبان و ادب کا فروغ شامل تھا وہیں ثقافتی سرگرمیوں سے عام لوگوں میں محبت ، بھائی چارے اور امن کا فروغ شامل تھا۔ چوہدری پرویز الٰہی کی اس کاوش کو اس وقت نہ صرف پورے صوبے بلکہ پاکستان اور دنیا بھر میں سراہا گیا۔ مگر اُنکی حکومت ختم ہونے کے بعد انکے دور میںلگائے گئے دیگر منصوبوں اور اداروں کی طرح یہ ادارہ بھی کہیں تاریکیوں میں گُم ہو گیا۔ تبھی گجرات سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر صغرا صدف نے جو خود بھی ادب سے تعلق رکھتی ہیں اور ادارے میں ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر فائز ہیں ، اپنی شبانہ روز کاوشوں اور پلاک کے عملے کی شب و روز محنت سے نا مساعد حالات میں بھی نہ صرف اس بے جان ادارے میں ایک نئی روح پھونک دی بلکہ آج یہ ادارہ پوری دنیا میں پنجابی زبان و ادب کا ترجمان ہے۔آج یہ ادارہ مشکل ترین حالات میں بھی زبان کی ترویج کی خاطر لاہور، ملتان اور راولپنڈی سے اپنے ایف ایم پنجاب رنگ کی نشریات چلا رہا ہے ، اسکے ساتھ ساتھ جلد صوبہ پنجاب کا پہلا سیٹیلائٹ ٹی وی بھی شروع کرنے جا رہا ہے اور اس منصوبے پر کام تیزی سے جاری ہے۔ تحقیق و اشاعت کے میدان میں بھی یہ ادارہ اپنا لوہا منوا چکا ہے اور اپنی دھاک بٹھا رہا ہے۔ ادارے نے بہت محنت اور لگن کے ساتھ سات جلدوں پر مشتمل پنجابی زبان کی ڈکشنری شائع کی ، پنجاب کے صوفی شعرا ء کے کلام کو دیگر زبانوں میں ترجمے کر کے چھاپا جا رہا ہے جس میں انگریزی اور چائنیز زبان شامل ہیں۔ اسکے علاوہ دیگر زبانوں میں موجود ادب کے نایاب موتیوں کو پنجابی زبان میں ترجمہ کر کے شائع کیا گیا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ پلاک جو کئی سالوں سے پنجابی زبان میں ایک ادبی رسالہ ’’ترنجن ‘‘ کے نام سے شائع کر رہا تھا اب ہائیر ایجوکیشن کمیشن سے منظور شدہ Yکیٹیگری کا تحقیقی مجلہ ’’پنجاب رنگ ‘‘کے نام سے شائع کر رہا ہے ، جس سے پورے صوبے میں موجود مختلف جامعات کے شعبہ پنجابی کے طلبہ و طالبات اور پنجابی زبان میں تحقیق کرنیوالوں کو بہت زیادہ سہولت ملی ہے ۔ اس وقت یہ ادارہ پنجابی زبان و ادب کی خدمت میں پیش پیش ہے اور ہر سو مگن ہے، آج جب کہ چوہدری پرویز الٰہی صاحب دوبارہ وزیراعلی کے منصب پر فائز ہیں تو اب ان کا فرض بنتا ہے کہ کوشش کر کے کچھ وقت اس ادارے کو بھی دیں اور اس کا دائرہ کار پورے صوبے میں پھیلانے کیلئے کوئی عملی اقدام اٹھائیں تا کہ دو دہائیوں قبل جو خواب انہوں نے دیکھا تھا اس کی تعبیر ممکن ہو ۔ اسکے علاوہ اس ادارے کے ملازمین سرکاری محکمہ میں ہوتے ہوئے بھی خود کو بہت غیر محفوظ تصور کرتے ہیں کیونکہ مہنگائی کے دور میں یہاں کے ملازمین کی تنخواہیں نہ صرف پنجاب بھر کے ملازمین کی تنخواہوں سے کم ہیں بلکہ دیگر ملازمین کو دئیے جانیوالے الاونسز بھی اس ادارے کے ملازمین کیلئے بس ایک خواب ہیں۔ علم و فن ، اور پنجابی زبان اور یہاں کی ثقافت سے عشق کرنیوالوں کی اس جنت کو وزیراعلی پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کی ذاتی توجہ کی ضرورت ہے، امید ہے کہ وہ اہلِ پنجاب کے ترجمان اس ادارے کو نظرانداز نہیں کرینگے اور نہ ہونے دیں گے۔