گھر سے آفس جاتے ہوئے ملتان ائیرپورٹ چوک پر میرے دائیں ہاتھ پر ایک کوٹھی ملبے کا ڈھیر بنائی جا رہی ہے۔ مزدور چھتیں توڑ چکے ہیں اور دیواریں چند دنوں کی مہمان ہیں۔ ملبہ برائے فروخت ہے اور پرانی اینٹیں ٹرالیوں میں ڈال کر شفٹ کی جا رہی ہیں۔ کبھی یہ وسیع و عریض کوٹھی سیاست کے اہم ترین مراکز میں سے ایک ہوا کرتی تھی۔ پاکستان کا کون سا سیاستدان ہے جو دائیں بازو سے تعلق رکھتا ہو اور اس گھر میں نہ آیا ہو۔ میں نے اپنی آنکھوں سے اس گھر میں کئی مرتبہ بہار دیکھی مگر آج ’’خزاں‘‘ دیکھی تو اس عارضی اور مستعار زندگی سے اور بھی دل بھر گیا۔ کیونکہ میں نے یہاں کئی بار لوگوں کا ہجوم دیکھ رکھا ہے۔ ملاقاتیوں کی منتظر آنکھیں دیکھی ہیں، ریل پیل کے سارے کھیل دیکھے ہیں۔ اب دو ہی دہائیوں میں اسے گرتا ہوا اور کسی نئی عمارت کیلئے میدان صاف ہوتا دیکھ رہاہوں۔ یہ جاوید اختر عرف مخدوم جاوید ہاشمی کا کبھی شادو آباد گھر تھا۔ یہاں درجنوں درخت تھے۔ کبھی سابق وفاقی وزیر صحت مخدوم جاوید ہاشمی سے ملاقات کیلئے آنے والوں سے نواں شہر چوک کے قریب ابدالی روڈ کا ایک معروف ہوٹل صرف اور صرف انہی کے ملاقاتیوں اور طبی معاملات سے وابستگی رکھنے والوں سے بھرا رہتا تھا۔ ملتان کے نواحی قصبے مخدوم رشید سے سیاسی زندگی کا آغاز کرنے والے جاوید ہاشمی مخدوم رشید سے لاہور اور پھر اسلام آباد سے ہوتے ہوئے واپس ملتان آئے مگر یہاں بھی ٹک نہ سکے اور اب ملتان سے واپس اپنے آبائی قصبے میں بنائے گئے محل نما گھر میں شفٹ ہو چکے ہیں۔ بے رحم سیاست کا اہم حصہ رہ کر بھی وہ اس کی بے رحمی اور بے اعتناعی کے رنگ سے خود کو محفوظ نہ رکھ سکے۔ ملتان میں مخدوم جاوید ہاشمی سے ایک ملاقات اسی کینٹ والے گھر میں کھانے کی میز پر ہوئی۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب نواز شریف کا اقتدار ختم ہو چکا تھا اور پرویز مشرف اقتدار پر فائز تھے میں نے سوال کیا کہ آپ کو پہلے اندازہ نہ ہو سکا کہ نواز شریف کی حکومت ختم ہونے جارہی ہے۔ مخدوم جاوید ہاشمی نے بہت خوبصورت جواب دیا۔ کہنے لگے اقتدار ایسی بے رحم چیز ہے کہ ہوش کے ناخن لینے ہی نہیں دیتی۔ ہم کھانا کھا رہے ہوتے ہیں جیسے اس وقت کھا رہے ہیں جس پلیٹ میں جو چیز ختم ہوتی ہے باوردی ویٹر فوری طور پر آگے بڑھ کر آپ کی پسند کا کھانا آپ کی پلیٹ میں ڈال دیتا ہے۔ آپ مختلف قسم کے کھانے تناول کرنے میں مگن ہوتے ہیں اور باہر اقتدار سنبھالنے والے گھیرا تنگ کر چکے ہوتے ہیں۔ مجھے انکی اس بات پر بہت سی باتیں یاد آئیں جو اقتدار اور بے رحم سیاست کے گرد گھومتی تھیں۔ اس واقعہ سے مجھے حافظ سلمان بٹ مرحوم یاد آ گئے جو رکن قومی اسمبلی کے علاوہ ریلوے یونین کے صدر بھی تھے۔ ایک دن ہنستے ہوئے کہنے لگے کہ میں ریلوے کی رابطہ مہم کے سلسلے میں سکھر میں تھا اور دھواں دھار تقریر کر رہا تھا۔ کسی نے سٹیج سے آکر میرے کان میں بتایا کہ اسمبلیاں ختم کر دی گئی ہیں اور حکومت ٹوٹ چکی ہے۔ حافظ مرحوم کہنے لگے میں نے وہیں تقریر ختم کی اور اگلے پروگرام منسوخ کرکے واپس لاہور کی طرف روانہ ہو گیا۔ انسان غلط یا درست جب ایک فیصلہ کر لیتا ہے تو عموماً اس فیصلے کے حق میں دلائل دیتا رہتا ہے۔ عمران خان کو چھوڑنے کا ایک غلط موقع پر غلط فیصلہ زیرک سیاستدان جاوید ہاشمی کی سیاست ختم کر گیا۔ عمران خان پر اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کا الزام عائد کرنے والے مخدوم جاوید ہاشمی گزشتہ چار سال سے اسی اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کرکے اقتدار میں آنے والی مسلم لیگ ن میں پہلے والے پروٹوکول کے ساتھ واپسی کیلئے کوشاں ہیں مگر انہیں وہ مقام نہیں مل سکا جو کبھی انہیں ملا تھا۔ حیرت اس بات پر ہے کہ وہ جانتے تھے نواز شریف کے ہاں معافی کی گنجائش بہت کم ہے اور وہ بھولنے والوں میں سے تو بالکل بھی نہیں۔ جب پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا تو شریف خاندان پر بہت کڑا وقت آیا تب انکی ’’ضرورت‘‘ کو مخدوم جاوید ہاشمی نے پورا کیا اور پھر جب دوبارہ اسمبلیاں وجود میں آئیں تو اپوزیشن لیڈر جاوید ہاشمی نہ تھے بلکہ اپوزیشن لیڈری شریف خاندان کے پاس تھی۔ وقت کا جبر ملاحظہ ہو کہ جاوید ہاشمی نے جو الزامات عائد کر کے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو چھوڑا تھا آج وہ جس پارٹی میں واپسی کیلئے کوشاں ہیں اس پارٹی پر وہی الزامات دس سے ضرب دیکر لگائے جائیں تو بھی شاید کم ہوں مگر جاوید ہاشمی کے اعتماد اور سالہاسال کی دوستی کو ’’دوست‘‘ ہی بیچ گئے اور انہیں بیماری کی حالت میں بھی ایسی تنہائی دے گئے جس کا مقابلہ گزشتہ پانچ سالوں سے اکیلے مخدوم جاوید ہاشمی ہی کر رہے ہیں۔وقت نے عمران خان کو باغی کا ٹائٹل دے دیا اور مخدوم جاوید ہاشمی کی طرف سے عمران خان پر لگائے گئے تمام الزامات وقت نے پلٹا کر رکھ دئے، مگر جاوید ہاشمی اب خاموش ہیں کہ وہ اپنے راستے خود بند کر چکے ہیں۔ میرے خیال میں تو یہ زیرک سیاستدان مروت میں مارے گئے۔ مجھے میرے ایک بھائیوں جیسے دوست طارق قریشی نے جس سے میں بعض معاملات میں رہنمائی بھی لیتا ہوں، ایک محفل میں ایک تقابلی جائزہ جاوید ہاشمی اور فاروق تسنیم کے حوالے سے پیش کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ضیاء الحق اقتدار سنبھال چکے تھے اور انہیں نئے سیاسی چہروں کی تلاش تھی۔ انہوں نے جاوید ہاشمی سے پوچھا کہ وہ یعنی جنرل ضیاء الحق آپ کیلئے کیا کر سکتے ہیں تو جاوید ہاشمی نے جو کہ پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے صدر رہ چکے تھے، ضیاء الحق سے عبوری سیٹ اپ کیلئے وزارت مانگ لی جو انہیں مل بھی گئی اور اس طرح اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کے نشتر برسانے والے جاوید ہاشمی اسٹیبلشمنٹ ہی کے ’’فضل وکرم‘‘ سے ایک ہی جست میں وفاقی وزیر بن گئے۔ طارق قریشی بتاتے ہیں کہ بعض معاملات میں زکریا یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے صدر فاروق تسنیم جاوید ہاشمی سے زیادہ نمایاں تھے اور کور کمانڈر ملتان سے ترقی پا کر چیف آف آرمی سٹاف بننے والے جنرل ضیاء الحق فاروق تسنیم کو ذاتی طور پر بھی جانتے تھے۔
جنرل ضیاء الحق نے فاروق تسنیم سے بھی اس قسم کا سوال کیا تو انہوں نے کسٹم کی نوکری مانگ لی اور بس پھر سرکاری ملازمت ہی کرتے رہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر بیٹھ قومی سیاست میں وارد ہونیوالے اس مخدوم کے پاس اب کہنے کو کچھ باقی نہیں رہا تو وہ اپنی موجودگی کا احساس دلانے کبھی کبھار اپنے ہی محسنوں پر چڑھائی کرنے کی بے سود اور بے سواد کوشش کرکے کمان سے نکلا تیر واپس لانے کا ناممکن خواب دیکھتے رہتے ہیں مگر ’’ اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت‘‘۔ جوانی میں درست اور بروقت فیصلہ کرنے والے جاوید ہاشمی پیرانہ سالی میں ایک ایسا غلط فیصلہ کر بیٹھے جو انہیں واپس مخدوم رشید لے گیا۔