حفیظ تائب: ایک عہد ساز نعت گو

شوق و نیاز وعجز کے سانچے میں ڈھل کے آ
یہ کْوچہ حبیب ہے، پلکوں سے چل کے آ
حضرت حفیظ تائب(1931ئ-2004ء ) ایک عہد ساز اور بے مثال نعت گو شاعر تھے۔ اْنکے علم و فضل، فنِ شعر پر عبور اور شخصیت نے سبھی کو اپنا اسیر کیا۔ ان کی نعت و سعت، تنوع اور تاثراتی گہرائی سے فیض یاب ہے۔ وہ اظہار و ابلاغ کے اسرارورموز سے آشنا تھے۔ حْسنِ عقیدت سے آشنا تھے۔ اندازِ تخلیق معجزانہ ہے۔
حفیظ تائب کا اصل نام عبدالحفیظ جبکہ تخلص تائب تھا۔ آپ کی پیدائش اپنے ننھیال پشاور چھائونی میں ہوئی۔ آبائی شہر احمد نگر ضلع گوجرانوالہ تھا۔ والد مشہور معلم‘ ادیب اور امام و خطیب تھے جن کا نام حاجی چراغ دین منہاس قادری تھا۔ فی سبیل اللہ امامت و تدریس کرتے۔ نعت خوانی کا اہتمام خصوصی طور پر کرتے۔ کہتے ہیں کسی درویش نے آپ کو خوش خبری دی کہ آپ کا فرزند نعت گوئی میں بلند مقام حاصل کرے گا۔ نعت گوئی سے شغف و محبت حفیظ تائب کو اپنے والد محترم سے ہی ملی۔ حفیظ تائب نے فنِ نعت گوئی کو کمالِ عروج تک پہنچا دیا۔ جدید نعت کو وسعت عطا کی، نئی جہتوں سے نوازا۔ نئی بحور تخلیق کیں۔
خواب میں در کْھلا حضوری کا
کیا وسیلہ بنا حضوری کا
اک کسک جب مجھے نصیب رہی
وہ بھی تھا مرحلہ حضوری کا
حفیظ تائب نے نعت گوئی سے پہلے فکر سخن کا آغاز غزل سے کیا۔ غزل میں تصوف و ایقان کا رنگ تھا۔ مشق سخن کا اگلا زینہ نعت گوئی تھا۔ پھر تاحیات اسی چمن میں رہے۔ نعت گوئی میں سچے جذبے‘ بے پایاں خلوص‘ سچی طلب اور بے پناہ عاجزی کا بھرم رکھا۔ ذکر حضور ﷺ پر پلکیں بھیگ جاتیں۔ دل عقیدت سے بھر جاتا۔ احساس تشکر سے سرشار ہوجاتے۔ سلیقہ و قرینہ‘ نیاز مندی سے اور بھی زرخیز ہو جاتا۔ خواجہ محمد زکریا کا فرمانا بجا ہے ’’ حفیظ تائب کی نعتیہ شاعری میں قصیدہ ، مثنوی، ترکیبِ بند، ترجیع بند، رباعی، مثلث، مسدس، سٹینزا، سی حرفی، دوہا، نظمِ آزاد، فردیات، گیت، لوری اور کئی جہتیں جا بجا موجود ہیں۔ اصناف کے اس تنوع کے بعد بحروں اور زمینوں کی نئی دنیا آباد کی۔‘‘حفیظ تاب نے الفاظ و تراکیب میں فطری توازن اور اعتدال رکھا۔
جلوے تھے جب اْس نورِ مجسم کے ہویدا
اْس عہدِ مقدس کی ہے، تصویر گری نعت
دلاور نگر سکھیکی میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ مڈل احمد نگر جبکہ میٹرک زمیندار ہائی سکول گجرات سے کیا۔ حفیظ تائب نے ایف ایس سی نان میڈیکل کے لئے زمیندار کالج‘ گجرات میں داخلہ لیا لیکن اسے خیرآباد اس لئے کہا کہ ر یاضی میںدلچسپی نہیں تھی۔ پھر اپنے ذوق کے مطابق اردو پنجابی کی تعلیم حاصل کرتے ہوئے گریجویشن مکمل کی۔ 1949ء میں واپڈا کی ملازمت اختیار کی۔ پنجاب یونیورسٹی سے 1974 ء میں ماسٹرز کیا۔ سبجیکٹ تھا پنجابی ۔1976 ء سے 2003ء تک شعبہ پنجابی میں درس و تدریس کا فریضہ سرانجام دیا۔ وہ پی ایچ ڈی کے مقالات کے بھی نگران تھے۔
نعتیہ شاعری پر آپ کے گہرے نقوش ہیں۔ بات دل سے نکلی اور دلوں کو اسیر کر گئی۔ نعت گوئی سے خصوصی لگائو تو بچپن ہی سے تھا۔ کبھی کبھار جمعہ کی نماز سے پہلے نعت سنایا کرتے۔ ان کا سینہ بچپن سے ہی ذکرِ حضورﷺ کے باعث منور تھا۔لڑکپن میں ہی شاعری کی طرف راغب ہوئے تونعتیہ شاعری سے متاثر تھے۔ پہلی نعتیہ رباعی 18برس کی عمر میں کہی۔ جذب و شوق کا عالم تھا۔ ذہن و دل عقیدت سے فیض یاب تھا۔ عالم وارفتگی میں جو کہا خوب کہا۔
کس طرح چاند نگر تک پہنچوں
آپ بلوائیں تو در تک پہنچوں
چْومتے چومتے قدموں کے نقوش
عرش کی راہِ گزر تک پہنچوں
حفیظ تائب نے عربی ادب کے نعتیہ ذخیرے سے براہِ راست استفادہ کیا۔ وہ پنجابی ، اردو، فارسی، عربی اور انگریزی زبانوں سے بخوبی واقف تھے۔ ان زبانوں کے ادبیات کا بہت وسیع مطالعہ تھا۔ اردو نعت کی پوری تاریخ میں وہ اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ انکی نعت میں سوز و گداز، اخلاص اور انکسار ہے۔انکا مقصد محض نعت گوئی نہیں تھا بلکہ اظہار عقیدت تھا۔ جذبہ و جنوں کا وہ سمندر تھا جو ان کے اندر موجزن تھا۔ اس نے رستہ پا لیا تھا۔ یہی وجہ ہے انکی نعت گوئی نے اپنے عہد کو متاثرکیا اور اپنے کمال فن سے اسے نئی جہت سے آشنا کیا۔ ان کا یہ نعتیہ سفر‘ نعتیہ تحریک میں ڈھل گیا۔ عشق رسول ﷺ سے سرشار حفیظ تائب نے اپنے ہم عصر شعرا کو بھی نعت گوئی کی طرف مائل کیا۔ انکی دعوت پر نعت کہنے والے جن شعرا کے نعتیہ مجموعے منظر عام پر آئے ان میں سرفہرست احمد ندیم قاسمی بھی ہیں۔ میری رہائش گاہ بھی اتفاق سے حفیظ تائب روڈ اقبال ٹاون میں واقع ہے اس عظیم ہستی کا لاہور میں سب سے زیادہ تعلق سینئر صحافی دانشور اور پنجابی زبان کی حفاظت پر مامور محترم مدثر اقبال بٹ سے تھا اور حسین اتفاق یہ ہے کہ وہ میرے سسر ہیں چند روز قبل مدثر اقبال بٹ کے قریبی دوست جناب مجید منہاس نے اپنے دولت خانے پر مدعو کیا جہاں میں نے حفیظ تائب کی خصوصیات اور انکی رسول پاک سے محبت کے قصے سنے ۔حفیظ تائب اصل میں نعت لکھتے نہیں تھے بلکہ نعت کہتے تھے۔ انکے ہاں آورد نہیں آمد تھی۔ انکے نعتیہ اشعار فصاحت و بلاغت سے بھرپور ہیں۔ والہانہ پن، سہلِ ممتنع اور اعلیٰ فنی محاسن سے ہمکنار ہیں۔
لفظ کے بس میں نہ تھا عرضِ تمنا کرنا
راس آیا مجھے اشکوں کو وسیلہ کرنا
اْنکے دامن بھی مْرادوں سے وہی بھرتے ہیں

عْمر بھر جن کو نہیںآیا تقاضا کرنا

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...