وزیر توانائی خرم دستگیر نے کہا ہے کہ 300 یونٹ تک کے بجلی صارفین کا فیول ایڈجسٹمنٹ معاف نہیں بلکہ مؤخر کیا ہے جسے اکتوبر سے مارچ کے درمیان وصول کیا جائیگا۔ ہماری کوشش ہے کہ کم وسائل والے افراد کو ریلیف دیا جائے۔ دوسری جانب وزیراعظم شہبازشریف نے سیلاب متاثرین سے اگست اور ستمبر کے بجلی بل نہ لینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ 300 یونٹ استعمال کرنے والے صارفین کو 35 ارب روپے کا ریلیف دیا جائیگا۔
بجلی کے بلوں میں فیول ایڈجسٹمنٹ سمیت تمام ناروا ٹیکسز کا نوٹس لیتے ہوئے لاہور ہائیکورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ حکم صادر کر چکی ہے کہ حکومت ایسے تمام ٹیکسز فوری ختم کرے جو صارفین پر بلاوجہ بوجھ ہیں۔ اس حکم کے باوجود بلوں سے ان ٹیکسز کا خاتمہ نہیں کیا گیا۔ گزشتہ دنوں وزیراعظم شہبازشریف کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ 300 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین فیول ایڈجسٹمنٹ کے چارجز سے مستثنیٰ ہونگے‘ اس پر عوام نے ساکھ کا سانس لیا لیکن گزشتہ روز وزیر توانائی کے اس بیان سے انکی ساری خوشیاں کافور ہو گئیں کہ فیول ایڈجسٹمنٹ معاف نہیں کیا بلکہ مؤخر کیا گیا ہے جو اکتوبر سے مارچ کے درمیان وصول کیا جائیگا۔ اگر فیول ایڈجسٹمنٹ وصول ہی کرنا تھا تو اسے مؤخر کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ یہ اقدام سراسر عدالتی حکم کی نافرمانی نظر آتی ہے۔ دوسری جانب وزیراعظم کی جانب سے سیلاب متاثرین کو ماہ اگست اور ستمبر کے بجلی بل معاف کرنے کا اعلان کیا گیا ہے جو خوش آئند ہے۔ انہوں نے 300 یونٹ استعمال کرنے والے صارفین کو 35 ارب روپے کا ریلیف دینے کا بھی اعلان کیا ہے۔ حکومت کو اپنے ان اعلانات پر بہرصورت عملدرآمد کرکے عوام کو مطمئن کرنا ہوگا کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے عوام کو ریلیف دینے کے اب تک جو بھی اعلانات کئے گئے ہیں‘ ان میں سے کسی کو بھی عملی قالب میں نہیں ڈھالا گیا۔ حکومت کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ اگر عوام کے ساتھ ایسے مذاق کئے جاتے رہے تو اس کیخلاف سخت عوامی ردعمل سامنے آسکتا ہے جس کا خمیازہ اسے عام انتخابات میں بھگتنا پڑیگا۔