سیاسی جماعتوں میں مفاہمت‘ کیا برف پگھلنے کو ہے؟

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ ملک میں بریک تھرو دور کی بات نہیں‘ جلد اچھی خبر آنیوالی ہے۔ سیاسی مفاہمت ہو‘ تمام فریقین ایک چھت تلے جمع ہوں‘ یہ اب ناممکن نہیں۔ مسائل اور ملکی بحرانوں سے نکلنے کا بہترین حل انتخابات ہیں۔ الیکشن میں اب چند ماہ کا فاصلہ رہ گیا ہے۔ سیاست دانوں کے درمیان الیکشن کے حوالے سے بات چیت ہونی چاہیے۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں صدر مملکت کا کہنا تھا کہ پاکستان کو درپیش تین بحرانوں میں سے سب سے بڑا بحران سیاسی بحران ہے۔ اس بحران کو حل کرنا آسان ہے۔ بہت سارے لوگ وقتی مفاد کی وجہ سے اس بحران سے نکلنے کو تیار نہیں۔ انتخابات شاید ان بحرانوں سے نکلنے کا بہتر حل ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے اعتبار سے سٹیک ہولڈرز سے بات چیت کر سکتا ہوں۔ مجھے ڈر ہے کہیں معاشی بحران اس نہج پر نہ چلا جائے کہ عوام سڑکوں پر آجائیں۔ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر معاملے کو نمٹانا چاہیے۔ ہٹ دھرمی سے ملک کا نقصان ہوگا‘ انا پر قابو پالیں تو ہم سو فیصد یہ کام کر سکتے ہیں۔ 
صدر مملکت نے اپنے انٹرویو میں جہاں ملکی سیاسی و معاشی صورتحال کے تناظر میں معاملات کو بہتر کرنے اور بات چیت کے راستے کھولنے کی بات کی ہے وہیں انہوں نے یہ بھی انتباہ کردیا ہے کہ ملک کی معاشی صورتحال میں اگر بہتری نہ آئی تو یہ خطرہ موجود ہے کہ کہیں ردعمل کے طور پر لوگ سڑکوں پر نہ آجائیں اور یہ ایسی صورتحال ہو گی جس کا ہمارا ملک متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس وقت ملک میں سیاسی طور پر دو کیمپ موجود ہیں‘ ایک سابق وزیراعظم عمران خان کا کیمپ جس میں انکے ساتھ پاکستان مسلم لیگ قائداعظم کا ایک دھڑا بھی شامل ہے جبکہ دوسرا کیمپ عمران خان مخالف سیاسی جماعتوں پر مشتمل ہے جن میں پاکستان مسلم لیگ نواز‘ پاکستان پیپلزپارٹی‘ جمعیت علماء اسلام (ف)‘ عوامی نیشنل پارٹی اور ایم کیو ایم سمیت درجن بھر جماعتیں شامل ہیں۔ وفاق میں عمران خان کی مخالف جماعتوں کی اتحادی حکومت قائم ہے۔ سندھ میں بھی حکومتی اتحادی جماعتوں کی حکومت ہے جبکہ پنجاب‘ خیبر پختونخوا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں عمران خان کی جماعت تحریک انصاف کی حکمرانی ہے۔ سیاسی مخالفت کی بناء پر وفاق اور عمران خان کی حامی تین صوبائی حکومتوں کے درمیان مخاصمت کی ایک فضا قائم ہے۔ اس لئے ان میں مثالی رابطہ کاری کا فقدان ہے۔ عمران خان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ جب سے اقتدار سے محروم ہوئے ہیں‘ ان کا رویہ انتہائی جارحانہ ہو گیا ہے۔ وہ وفاقی حکومت میں شامل بڑی جماعتوں مسلم لیگ نواز اور پیپلزپارٹی سے براہ راست ٹکرائو کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔ وہ ان جماعتوں کی قیادتوں کو ہدف تنقید بناتے ہوئے تہذیب و شائستگی کی سب حدیں پھلانگ دیتے ہیں۔ وہ کسی سطح پر بھی اپنے اندر نرمی اور رواداری پیدا نہیں کر پا رہے اور کامل اناپرستی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ وہ اپنے مخالف سیاست دانوں کی ذات کیخلاف رکیک حملے کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔ ایک مقبول مرکزی حیثیت کے حامل اور وزارت عظمیٰ کے بلند ترین منصب پر فائز رہنے والے سیاست دان سے جس قسم کے رویے کی توقع رکھی جانی چاہیے‘ وہ
 عمران خان میں سرے سے مفقودہے۔ وزیراعظم شہبازشریف نے حزب اختلاف میں رہتے ہوئے اور اب اقتدار میں آنے کے بعد بھی متعدد بار عمران خان سے ملک کی معاشی صورتحال میں بہتری لانے کیلئے ’’میثاق معیشت‘‘ کی پیشکش کی لیکن عمران خان نے رعونت اور تکبر کے ساتھ اس پیشکش کو ٹھکرا دیا۔ وہ سیلاب کے دوران بھی مختلف شہروں میں سیاسی اجتماعات کرتے اور جلسوں میں عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے ایسے بیانات دیتے رہے ہیں جو ملک میں انتشار کا سبب بنتے ہیں۔ اب انہوں نے ماہ ستمبر ہی کی کسی تاریخ کو اسلام آباد کی کال دینے کا اعلان بھی کر رکھا ہے جس سے ظاہر ہے ملک میں انارکی پھیلے گی۔ 
دوسری طرف سابق صدر مملکت اور پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرینز کے قائد آصف علی زرداری نے جمہوریت کے عالمی دن کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ جمہوریت ہماری روح ہے۔ ہم جمہوریت کا علم کبھی بھی سرنگوں نہیں ہونے دینگے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ جمہوریت انسانیت کیلئے ناانصافی‘ عدم مساوات اور پولرائزیشن سے لڑنے کا ایک بہترین ہتھیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ افراتفری اور سماجی ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے آمرانہ اور مطلق العنان خیالات نے جگہ بنا لی ہے۔ تاہم انکی پارٹی اور پاکستان کے عوام مزید اور مضبوط جمہوریت کیلئے کھڑے ہیں۔ 
سابق صدر آصف علی زرداری اور پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے جمہوریت کا علم بلند رکھنے کے پیچھے بھی درحقیقت سیاسی رواداری‘ برداشت اور امن و بھائی چارے کی خواہش ہی جھلکتی دکھائی دیتی ہے۔ اگر یہ جذبات ہماری تمام سیاسی جماعتوں کی قیادتوں کی سوچ اور فکر پر غالب آجائیں تو اس وقت جو تلخی اور چپقلش سیاسی جماعتوں کے اندر پائی جاتی ہے وہ ختم ہو جائے۔ جھوٹی انائوں‘ ہٹ دھرمی اور دوسروں کیخلاف نفرت کے جذبات سے کبھی بہتری نہیں آسکتی۔ جمہوریت کی دعویدار تمام جماعتیں اگر اپنے اندر جمہوری کلچر کو فروغ دیں اور ایک دوسرے کو اختلاف رائے کے ساتھ برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کرلیں تو بہت سی خرابیوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اور وہ مسائل جو اژدھے کی مانند منہ کھولے ہوئے ہیں‘ انکے حل کا راستہ بھی نکالا جا سکتا ہے۔بہر حال موجودہ ناموافق اور تکلیف دہ حالات میں صدر مملکت کی طرف سے ملک میں متحارب سیاسی جماعتوں میں مفاہمت کا عندیہ دینا مسموم فضا میں خوشگوار ہوا کا جھونکا قرار دیا جائیگا۔ سیاسی جماعتوں کا ایک چھت تلے بیٹھنا اور ایک ٹیبل پر گفتگو کیلئے آمادہ ہونا ایک دل خوش کن بات ہے جس کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ یقین واثق ہے کہ صدر مملکت نے یہ خوشگوار بیان دینے سے قبل کچھ نہ کچھ ہوم ورک بھی کرلیا ہوگا۔لیکن اصل ٹاسک تو ان کا اپنے قائد عمران خان کو ’ راہ راست ‘پر لانے کا ہے۔جن میں رعونت اور تکبر آج بھی اسی طرح موجود ہے ۔ اگر وہ انہیں قائل کرلیں کہ وہ ملک کے وسیع تر مفاد میں اپنی انا کے بت کو توڑ کر مفاہمت کی راہ اپنائیں تو یہ یقینی طور پر ایک بڑا بریک تھرو ہوگا۔ قوم کی نظریں اب صدر مملکت کی جانب لگی ہیں کہ وہ اس سمت مزید پیش رفت کب اور کس انداز میں کرتے ہیں اور برف پگھلنے کا عمل کب شروع ہوتا ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن