المعرُوف داتا گنج بخشی

آپ کے 979 سالانہ عرس مبارک کی تقریبات عروج پر پہنچ گئیں
آپ نے لاہور آمد کے بعد راوی کے کنارے جھنڈا نصب کرتے ہوئے کہا کہ: ’’اب یہ شہر پر اسی طرح سایہ فگن رہے گا‘‘ 

حضرت خواجہ غریب نواز نے آپ کے آستانہ پر چلہ کشی فرمائی اور دامن معطر کو مزید مشک بار کیا 

حضرت بابا فرید الدین گنج شکر نے درگاہ کے نزدیک ٹبہ پر چلہ کشی کی اور گھٹنوں کے بل سلام کرنے حاضر ہوتے 

جس کا کوئی پیر و مرشد نہ ہو اسے کشف المحجوب کے حوالے سے خیر و برکت مل جائے گی: حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء 

چالیس روز تک آپ کے حضور حاضری دے کر من کی مراد حاصل کی: شہزادہ داراشکوہ 
خالد بہزاد ہاشمی 
مرکز تجلیات، سید مخدوم، محافظ لاہور، منبع فیوض و برکات حضرت سید علی بن عثمان الہجویری المعروف داتا گنج بخش کے 979 ویں سالانہ عرس مبارک کی تقریبات ان کے نام سے معروف و مشہور ہونے والے شہر داتا کی نگری میں باتزک و احتشام روایتی جوش و خروش، عقیدت و احترام کے ساتھ شروع ہو چکی ہیں۔ مزار پر انوار بقۂ نور بنا ہوا ہے جبکہ گرد و نواح کے علاقے میں میلے کا سماں ہے اور ملک بھر سے زائرین اور عقیدت مند عقیدت کا نذرانہ پیش کرنے کے لئے حاضر ہو رہے ہیں جبکہ بیرون ملک سے بھی وفود کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ حسب روایت محکمہ اوقاف کے زیر اہتمام ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر طاہر رضا بخاری نے جامع حکمت عملی مرتب کرتے ہوئے سہ روزہ عالمی تصوف کانفرنس اور دیگر روحانی محافل کا انعقاد کیا جس میں ایران، ترکی، افغانستان، ہندوستان، یمن، برطانیہ سے معروف علمی و روحانی شخصیات نے شرکت کی۔ علاوہ ازیں ملک بھر سے پانچ سو سے زائد سجادگان، مشائخ، سکالر، قراء و نعت خواں حضرات بھی یہاں اپنی روحانی پیاس بجھانے کے لئے دیدۂ دل فرش راہ کیے ہوئے ہیں۔ حضرت داتا گنج بخش کا عرس جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا  اجتماع ہے جس میں 25 سے 30 لاکھ افراد بھی شرکت کرتے رہے ہیں اور پاکستان بننے سے قبل غیر مسلم بھی بڑی تعداد میں عرس کی تقریبات میں شرکت کرنا اپنے لئے سعادت سمجھتے اور امرتسر سے تو لوگ سائیکلوں پر اور پیدل داتا صاحب کے عرس پر حاضری دیتے۔ 
لاہور ایک ہزار سال سے زائد عرصہ سے اولیاء کرام اور صوفیاء کرام کا مسکن رہا ہے، اس سرزمین پر یوں تو حضرت اسماعیل بخاری، حضرت شاہ حسین زنجانی، حضرت مادھو لال حسین، حضرت میاں میر، حضرت پیر مکی، حضرت ایشاں خواجہ خاوند محمود، حضرت خواجہ طاہر بندگی، حضرت شاہ ابو اسحاق، حضرت عبدالرزاق، حضرت نتھا شاہ دیوان، حضرت ملاں شاہ، حضرت خواجہ بہاری، حضرت ہادی شاہ رہنما، حضرت شاہ کمال، حضرت شاہ جمال، حضرت عنایت حسین قادری، حضرت سید مٹھا، حضرت ترت مراد شاہ، حضرت یعقوب حسین زنجانی، حضرت شاہ ابو المعالی قادری، سید میراں بادشاہ، حضرت محمد صالح، حضرت جان محمد لاہوری، حضرت شیخ موسیٰ آہن گر، حضرت شاہ عبدالجلیل چوہڑ بندگی، حضرت شیخ نعمت اللہ سرہندی، حضرت شاہ بلاول، حضرت پیر ذکی شہید حضرت پیر بلخی، حضرت شاہ ربانی چشتی، حضرت بی بی پاک دامناں، حضرت شاہ کاکو چشتی، حضرت سید جھولن شاہ، حضرت سید موج دریا بخاری، حضرت سید شہاب الدین نہرا، حضرت شاہ شمس الدین قادری، حضرت شیخ حسن ، حضرت حاجی نور صاحب، حضرت شیخ عارف چشتی، حضرت سید جان محمد حضوری، حضرت شاہ گداہ لاہوری، حضرت ثانی محمد افضل المشہور فضل گدا حضرت شیخ جان محمد سہروری، حضرت شیخ سعید بلخاری، حضرت شاہ محمد غوث قادری، حضرت حاجی محمد سعید لاہوری، حضرت شیخ اشرف، حضرت شاہ درگاہی قادری، حضرت صابر شاہ مجذوب لاہوری، حضرت شاہ شرف لاہوری، حضرت شاہ سرمست، حضرت شیخ حامد قاری، حضرت معصوم شاہ مجذوب لاہوری، حضرت شیخ عبداللہ شاہ بلوچ قادری، حضرت فقیر تاج شاہ مجذوب، حضرت نظام شاہ مجذوب لاہوری، حضرت مستان شاہ مجذوب لاہوری اور سینکڑوں اولیاء کرام آسودہ خواب ہیں لیکن جو عزت اور تکریم حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش کے حصہ میں آئی اس سے دیگر محروم رہے۔ جب آپ لاہور میں جھنڈا اٹھائے داخل ہوئے تو شہر کے شمال رُخ راوی کے نزدیک رات بسر کی۔ اس سوقت لاہور کے مغربی بیرونی حصہ میں ہندوئوں کا ایک متبرک مندر تھا اور یہاں نزدیک سے راوی بھی اپنی روانی کے ساتھ محو خرام تھا۔ حضرت داتا صاحب نے اس مندر کے نزدیک اسلامی جھنڈا نصب کرتے ہوئے یہ فرمایا تھا کہ اب انشاء اللہ یہ جھنڈا قائم اور لاہور پر اسی طرح سایہ فگن رہے گا، آجکل بھی اس جگہ سنگ مر مر کی پانی کی ایک سبیل بنی ہوئی ہے۔ بقول شہزادہ داراشکوہ جیسے ہی مخدوم صاحب نے لاہور کو اپنے وجود مبارک سے رونق بخشی تو گردونواح کے تمام لوگ آپ کے معتقد اور مرید ہو گئے ۔
اہلیان لاہور آپ کے احسان عظیم کے سامنیآج تک اپنی جبیں خم کئے ہوئے ہیں کہ آپ کی ہی بدولت یہ شہر ’’داتا کی نگری‘‘ کہلاتا ہے، قدیم تواریخ کے مطالعہ سے آپ کا لاہور میں قیام تیس سال سے زائد بنتا ہے۔ آپ چشم تصور سے ایک ہزار پچیس سال قبل کے لاہور کا سوچیں کہ ایک گزر گاہ ہونے کے باعث اس شہر میں طوائف الملوکی اور بدامنی کا کیا عالم تھا اور اس خالصتاً ہندو شہر کی آبادی، مذہب، کلچر، ثقافت، زبان اور روایات کیا تھیں۔ اس وقت سلطان محمود غزنوی کا بیٹا سلطان مسعود غزنوی سربراہ مملکت تھا۔ بقول محترم ڈاکٹرظہور احمد اظہر برعظیم میں اسلام کی تاریخ کی پانچویں صدی ہجری، بلاشبہ مرشد لاہور شیخ ابو الحسن علی بن عثمان الحسنی کے نام ہے اور یہیں سے شہر لاہور بھی داتا کی نگری اور عالم اسلام کا دھکڑتا دل قرار پاتا ہے۔ بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اس مرحلہ سے اندھیروں میں گم لاہور کو روشن تاریخ نصیب ہوتی ہے ۔ اس پانچویں صدی کے دور ان جب پورا عالم اسلام، مشرق سے مغرب تک اور شمال سے جنوب تک، حضرت مرشد لاہور کی جولا نگاہ تھی، نوخیز سید علی بن عثمان غزنوی کبھی اس وقت کے علوم مروجہ سمیٹنے میں رواں دواں رہے۔ کبھی وہ تصوف عرفان کے موتی چنتے ہوئے سرگرداں دکھائی دیئے اور کبھی اسلام کی تعلیم و تبلیغ کی شمعیں روشن کرکے علم توحید سے کفر و شرک اور جہالت کی تاریکیاں مٹانے میں مصروف رہے۔ آخر کار سید ہجویر اسلامی لاہور کی تعمیر کے لیے جم کر یہیں بیٹھ گئے اور یہی داتا کی نگری شہر لاہور ان کی زندگی کا آخری نقش قدم، آخری منزل اور مدفن ٹھہرا اور تاقیامت وہ یہیں آسودہ خواب رہیں گے۔ یہی نہیں بلکہ براعظم میں اسلامی تاریخ کی پانچویں صدی ہجری سید ہجویر کی تاریخ بن گئی اور بقول حضرت مجدد الف ثانی صاحب کشف المحجوب اللہ تعالیٰ کے ولی کامل کے طفیل شہر لاہور برعظیم اشاعت و تبلیغ اسلام کے لیے قطب ارشاد، یعنی ہدایت و رہنمائی کا مرکز و محور بن گیا اور اسلامی تحریکوں کے آغاز کے لیے قوت محرکہ اور روحانی پڑائو یا پلیٹ فارم ثابت ہوا۔ چنانچہ حضرت خواجہ اجمیر بھی حصول راحت و رہنمائی کے لیے یہیں آ کر سستائے اور پھر آگے بڑھے تھے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قیام کی قرارداد بھی یہیں پاس ہوئی اور 1974ء میں بیک وقت پچاس سے زائد اسلامی ملکوں کے سربراہ بھی برعظیم کے قطب ارشاد اسی شہر لاہور میں یہی پیغام دینے کے لئے جمع ہوئے کہ اب ’’برعظیم اسلام کا ہے‘‘
آپ کا سلسلہ نسب آٹھ واسطوں سے حضرت شیر خدا، حضرت علی المرتضیٰ سے ملتا ہے۔ آپ ہاشمی سید اور حسنی ہیں۔ غرنی میں آپ کا خاندان بہت عزت و توقیر سے دیکھا جاتا تھا۔ آپ کی والدہ ماجدہ عابدہ زاہدہ خاتون تھیں اور آپ کے ماموں تاج الاولیاء کے لقب سے مشہور تھے۔ مغل شہزادہ داراشکوہ جب اپنے والد شہنشاہ شاہ جہاں کے ہمراہ افغانستان گیا تو اس نے تاج الاولیاء کے مزار پر بھی حاضری دی تھی۔ آپ نے حضرت شیخ ابوالفضل محمد بن حسن الختلی سے فیض حاصل کیا جو شیخ ابوالحسن مصری کے مرید اور حضرت جنید بغدادی کے متعبین میں سے تھے۔ آپ کے پیرومرشد ساٹھ سال تک پہاڑوں میں گوشہ نشین رہ کر مصروف عبادت رہے تھے حضرت داتا گنج بخش فرماتے ہیں کہ ایک روز اپنے پیر و مرشد کو وضور کرا رہا تھا کہ اس دوران دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ جب ہر کام تقدیر سے متعلق ہے تو پھر اللہ تبارک تعالیٰ اپنے آزاد بندوں کو امید کی بنا پر غلام کیوں بناتا ہے حضرت داتا گنج بخش فرماتے ہیں کہ مرشد پاک کشف کے ذریعہ میرے خیال سے آگاہ ہوئے اور فرمایا:
 ’’ لڑکے جو تُو نے سوچا ہے میں نے اسے جان لیا ہے۔ اس بات کو یاد رکھ کہ ہر کام کے لیے کوئی نہ کوئی سبب ہے۔ جب اللہ تعالیٰ اپنے کمتر بندے کو کرامت کا تاج پہنانا چاہتا ہے تو اس کے لیے کوئی سبب ظاہر فرما دیتا ہے اور اسے توبہ نصیب ہو جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ اسے اپنے کسی دوست کی خدمت میں مشغول کر دیتا ہے اور پھر یہ خدمت اس کی عزت کا سبب بن جاتی ہے۔
 حضرت داتا صاحب اپنے مرشد کامل کے وصال کا حال لکھتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’حضرت ختلی کے وصال کے وقت آپ کا سر مبارک میری گود میں تھا۔ اس روز ہم’’بیت الجن‘‘ میں یہ ایک گائوں ہے جو دمشق اور بانیارود کے مابین ایک گھاٹی پر آباد ہے۔ اپنے ایک پیر بھائی کی بابت دل میں رنجیدہ تھا جیسا کہ عام زندگی میں لوگ ایک دوسرے سے ہو جایا کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف مجھے اپنے پیر و مرشد کی جدائی کا تصور بھی غمگین کر رہا تھا۔ اس ماحول میں جو آخری نصیحت میرے شیخ نے مجھے فرمائی وہ یہ تھی۔
’’بیٹے میں تجھے عقیدے کا ایک مسئلہ بتاتا ہوں، اگر تو اپنے آپ کو اس پر چلائے گا تو درد و تکلیف سے مامون رہے گا، ہر جگہ ہر حال میں نیک ہو یا بد، اللہ ہی پیدا کرتا ہے، مناسب یہی ہے کہ اس کے اس فعل پر نہ جھگڑا کر اور نہ دل میں رنج و غم کو جگہ دے۔‘‘
ڈاکٹر مولوی محمد شفیع کے مطابق آپ460ھ کے بعد لاہور تشریف لائے۔ آپ سے قبل خطہ لاہور حضرت سید اسماعیل بخاری (ہال روڈ) اور حضرت شاہ حسین زنجانی کے روحانی فیض سے منور تھا۔ ڈا کٹر ظہور احمد اظہر اپنی معروف تالیف داتا پیر اپنی نگری میں رقمطراز ہیں کہ حضرت داتا صاحب سے پہلے صرف ایک عالم اور مبلغ کا لاہور میں آنا ثابت ہے اور وہ تھے سید اسماعیل بخاری جن کا ڈیرہ اس وقت کے چھوٹے سے لاہور سے دور فاصلے پر تھا جہاں ان کے مزار کی نشاندہی آج بھی ہال روڈ کے مشرق میں کی جاتی ہے۔ داتا پیر بھی اسی چھوٹے سے دیہات نما لاہور کے مغرب میں دین حق کی شمع جلا کر بیٹھ گئے ۔ خواجہ خواجگان، ہندالولی، سلطان الہند، خواجہ غریب نواز حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری جب آپ کی بارگاہ میں فروکش ہوئے تو یہاں چالیس روز تک چلہ کشی فرمائی اور روحانی فیوض و برکات سے اپنے دامنِ معطر کو مزید مُشک بار کیا اور جاتے ہوئے وہ مشہور عالم شعر کہا جو آپ کے آستانہ مبارک پر رقم ہے:۔
 گنج بخش فیضِ عالم مظہرِ نُورِ خدا
 ناقصاں را پیر کامل کاملاں را راہنما
 حضرت خواجہ غریب نواز نے آپ کے پیر بھائی حضرت شاہ حسین زنجانی کے مزار پر بھی چلہ کشی فرمائی، یوں آپ کے مرشد حضرت شیخ ابو الفضل محمد بن حسن ختلی کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ آپ کے دو قابلِ فخر مریدوں کے مزارت مبارکہ پر حضرت خواجہ غریب نواز نے چلہ کشی فرمائی۔
حضرت خواجہ غریب نواز اور ان کے محبوب خلیفہ حضرت خواجہ بختیار کاکی نے حضرت شیخ العالم شیخ کبیر، حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر کو روحانی فیض اور خلافت عطا فرمائی تھی اور حضرت بابا فرید الدین گنج شکر نے محبوب الٰہی سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کی سر مبارک پر دلی کا روحانی تاج رکھا تھا۔ حضرت بابا فرید الدین گنج شکر کی حضرت داتا گنج بخش سے عقیدت کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے پورے لاہور میں آپ کے آستانہ مبارک کے نزدیک بلند جگہ پر قیام فرمایا اور چلہ کشی کی جو ٹبہ بابا فرید کہلاتا ہے۔ آپ یہاں سے گھٹنوں کے بل چلتے ہوئے آپ کی بارگاہ میں حاضری دیتے اور فیوض و برکات سے اپنا دامن بھرتے۔
 حضرت داتا گنج بخش کی لاہور آمد سے قبل محمود غزنوی کے ہندوستان پر سترہ حملوں کے مختلف اثرات غیر مسلم آبادی کے دلوں پر نقش تھے۔ اس دورمیں لاہور کا ایک حصہ غازیوں کے نام سے مشہور تھا اور یہ غازی بغیر کسی تنخواہ کے جہاد کے لیے تیار رہتے تھے اور ان کا گزارہ مال غنیمت پر ہوتا تھا۔ لاہور کی غیر مسلم آبادی مسلمانوں کا مذاق اور تمسخر اڑاتی اور مائیں اپنے بچوں کو مسلمانوں کی شکلوں سے ڈراتی تھیں۔ ایسے نامساعد حالات میں آپ نے یہاں تبلیغ دین شروع کی تو آپ کوچھوت چھات میں جکڑی ہندو آبادی کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، لیکن آپ کے حسنِ اخلاق، روشن تعلیمات، رواداری،درگزر، انسانیت اور بھلائی کی بدولت لاہور کے ناظم الامور رائے راجو راجپوت جو جادوگری، نجوم، ریاضی اور دیگر علوم کا ماہر تھا آپ کے دستِ حق پر بیعت کی اور تاریخ میں حضرت شیخ ہندی کے لقب سے مشہور ہوا۔ اور آج بھی آپ کے روضہ مبارک سے متصل محو خواب ہے جہاں زائرین اور عقیدتمند فاتحہ خوانی اور دعائیں مانگتے ہیں۔
 آپ کی تصنیف کشف المحجوب کو شہر آفاق مقبولیت حاصل ہوئی۔ حضرت سلطان المشائخ، محبوب الٰہی، سلطان جی، حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء فرماتے ہیں کہ جس کا کوئی پیرومرشد نہ ہو اسے کشف المحجوب کے حوالے سے خیروبرکت مل جائے گی۔
آپ کے وصال کے وقت حضرت شیخ ہندی نے اپنے ہاتھ سے لحد مبارک اور چبوترا تیار کیا۔ بعدازاں ظہیر الدین ابراہیم غزنوی(492-451ھ) نے آپ کی قبر مبارک بنوائی۔ مغل اعظم جلال الدین اکبر نے آٹھ پہلو مقبرہ، مزار کے گرد چار دیواری اور بڑے دالان تعمیر کرائے، رنجیت سنگھ اس کے فیل بان میاں عرض خان اور اس کی ملکہ مائی موراں سرکار نے بھی یہاں بہت سی تعمیرات کرائیں۔ نور محمد سادھو نے لکڑی کی چھت کی جگہ پختہ گنبد تعمیر کرایا۔1940ء میں مولوی فیروزالدین(فیروز سنز) نے لکڑی کی جالیوں کی جگہ سنگِ مر مر کی جالیاں لگوائیں اور بیرونی دیواروں پر سنگِ مرمر نصب کرایا اور مزار کے گنبد کو سبز ٹائلوں سے مزین کیا۔ معروف مؤرخ نور احمد چشتی کے دور میں بھی درگاہ شریف پر جمعرات اور جمعہ کے روز عقیدت مندوں کا اژدہام رہتا جب کہ ہر جمعہ کو آٹھویں روز یہاں میلہ لگتا جس میں اندرون اور بیرون شہر سے مخلوق خدا حاضری دیتی۔ شاہ جہاں اور ممتاز محل کے لخت جگر شہزادہ داراشکوہ قادری اپنی کتاب سفینتہ الاولیا میں لکھتے ہیں کہ جو کوئی چالیس روز یا چالیس جمعرات آپ کے روضہ پر حاضری دیتا ہے تو جو مراد چاہے وہ اللہ تعالی سے پاتا ہے جب کہ شہزادہ نے اپنے بارے بھی تحریر کیا کہ وہ مسلسل چالیس روز حضرت کے مزار پر حاضری دیتا رہا اور اس کی جو بھی دل کی مراد تھی وہ اسے حضرت داتا صاحب کے طفیل اللہ تعالی کی بارگاہ سے حاصل ہوئی۔ 
مغل شہنشاہ اور داراشکوہ کے والد شاہ جہاں کے عہد میں راوی قلعہ کے نیچے سے بہتا تھا اس گھاٹ کے ذریعے کابل جانے والی سڑک عبور ہوتی تھی اور قلعہ کے جنوب مغرب میں حضرت داتا گنج بخش کے مزار مبارک کے علاوہ کوئی بڑی اور قابل ذکر عمارت موجود نہیں تھی آبادی میں گھرے مزار مبارک کے ساتھ ایک علاقہ شیش محل کہلاتا تھا اور یہ علاقہ ساندہ تک محیط تھا، شیش محل شیشوں سے مرصع و آراستہ ایک قابل دید عمارت تھی جو بدامنی اوربیرونی حملہ آوروں کے ہاتھوں صفحہ ہستی سے مٹ گئی، اناراں والا باغ (مقبرہ انارکلی، سیکرٹریٹ) اور اورنگ زیب عالمگیر کی لخت جگر حافظہ اور صاحب دیوان شاعرہ شہزادی زیب النسا مخفی کے چوبرجی باغ کی حدود بھی آپ کے مزار مبارک کے نواح تک تھیں۔
آج ایک ہزار سال گزرنے کے باوجود دہشت گردی کے بزدلانہ، شرمناک حملے، پروپیگنڈہ اور لاکھ رکاوٹیں بھی حضرت داتا گنج بخش کے چاہنے والوں کو ان کے قدموں سے دور نہیں کر سکیں۔ یہاں آکر دلوں کی میل اور کثافت دھلتی اور قلب و نظر کو فکری و روحانی بالیدگی عطا ہوتی ہے۔ آپ کا مرقد پر انوار و مرکز تجلیات، سبز گنبد، سنگِ مر مر کا دالان جالیاں اور چوکھٹ یونہی تاابد بھٹکے ہوؤں کے لئے رشد و ہدایت کا بڑا ذریعہ بنا رہے گا۔ گزشتہ شب اس گناہ گار کو بھی داتا حضور کے عرس مبارک میں شرکت کا موقع ملا برخوردار نبید ہاشمی بھی ہمراہ تھے۔ اس موقع پر یہ دیکھ کر ازحد تکلیف ہوئی کہ ایک بڑی سیاسی پارٹی کا غول جو بظاہر حضرت داتا صاحب کے حضور پھولوں، چادروں کا نذرانۂ عقیدت پیش کرنے آیا تھا عین مرقد منور کے سامنے یکلخت مائیک پر بآواز بلند اپنے سیاسی رہنماؤں اور پارٹی کے نعرے لگانے لگا جو کہ انتہائی شرمناک حرکت ہے۔ مذہب اور لوگوں کے مذہبی جذبات کو اپنے سیاسی اور دنیاوی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی روش تیزی سے فروغ پا رہی ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے اور اس سلسلہ میں ذمہ دار سیاستدانوں اور منبر و محراب کو اپنا فرض منصبی ادا کرنے کی ضرورت ہے بصورتِ دیگر وہ دنیا و آخرت میں اللہ تعالیٰ کے بزرگ و برتر ہستیوں کی بے ادبی و گستاخی کے مرتکب گردانے جائیں گے۔

ای پیپر دی نیشن