کالا باغ ڈیم، نیب قوانین اور پی آئی اے کی نجکاری!!!!!!!!!

ملک میں توانائی اور پانی کے مسائل حل کرنے کے لیے کالا باغ ڈیم ضروری ہے۔ پاکستان میں اس حوالے سے مختلف وقتوں میں بہت بحث ہوتی رہی ہے ۔ علاقائی مسائل بھی آڑے آئے ہیں، شاید سیاسی جماعتوں نے اسے سیاسی مسئلہ بنا لیا اور اسے قومی مسئلہ سمجھنے کے بجائے اندرونی اختلافات کو بنیاد بنا کر ہی بات ہوتی رہی ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ شاید اس اہم ترین مسئلے پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی اس سنجیدگی کے ساتھ کوشش نہیں کی گئی جس سنجیدگی کا یہ مسئلہ متقاضی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی حکمرانوں نے کالا باغ ڈیم کی بات تو کی لیکن اس مسئلے کو اتنی اہمیت نہیں مل سکی۔ اگر ہم ایٹمی طاقت بن سکتے ہیں، ایٹم بم بنا سکتے ہیں تو کالا باغ ڈیم کیوں نہیں بنا سکتے، اگر ہم دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے ایٹمی طاقت کے حصول پر وقت سرمایہ لگا سکتے ہیں، بہترین لوگوں کی خدمات حاصل کر سکتے ہیں تو کالا باغ بناتے وقت ہم اسی لگن، جوش و جذبے اور دلجمعی سے کام کیوں نہیں کر سکتے۔ ثابت ہوتا ہے کہ فرق صرف مقصد سے جڑنا اور مقصد حاصل ہونے تک یکسوئی کے ساتھ ہدف حاصل کرنے کے لیے محنت کرنا ہے ۔ ہم سب کچھ کر سکتے ہیں۔ کیا توانائی اور پانی کا بحران کسی بڑے دشمن سے کم نہیں ہے۔ ہم کیوں اس کا مقابلہ کرنے کے لیے متحد نہیں ہو پا رہے ہیں۔،گورنر پنجاب بلیغ الرحمان نے اس نازک، حساس اور اہم معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ کالاباغ ڈیم نہ بنانا ایک غلطی تھی اور جنہوں نے یہ غلطی کی ہے ان کا مواخذہ ہونا چاہیے، کالا باغ ڈیم سستی توانائی اور پانی کے حصول کیلئے ناگزیر ہے۔ ملکی اور غیرملکی دونوں عناصر نے رکاوٹ ڈالی اور کالا باغ ڈیم کو متنازع بنایا گیا۔ ماضی کے غلط فیصلوں کی سزا آج عوام بھگت رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن نے قوم کو توانائی بحران سے نکالا، کالا باغ ڈیم سستی توانائی اور پانی کے حصول کیلئے ناگزیر ہے جو قدرتی طور پر بنی بنائی جھیل ہے۔
گورنر پنجاب بلیغ الرحمان نے کم از کم اس حوالے سے بات تو کی ہے۔ بدقسمتی ہے کہ ہمارے سیاستدانوں نے خود کو بچانے کے لیے ہر قسم کی قانون سازی تو کر لی لیکن ملک و قوم کے فائدے کے لیے صوبوں کو ایک ساتھ بٹھا کر تحفظات دور نہیں کر سکے۔ یہ کونسا مشکل ہے۔ آخر ملک سب کا ہے اور سب ہی ملک کی بہتری چاہیں گے اگر کسی کے علاقائی تحفظات ہیں تو انہیں حل کیا جائے جو لوگ متاثر ہو رہے ہیں سب سے پہلے ان کو سنا جائے ان کے نقصان کا ازالہ کیا جائے۔ یہ جو اربوں کھربوں ہم بجلی حاصل کرنے کے لیے خرچ کرتے ہیں اپنے لوگوں کی زندگی کو عذاب بنا کر رکھا ہے یہ پیسہ لوگوں کو اس عذاب سے نکالنے کے لیے خرچ کیوں نہیں کر سکتے۔ آئی پی پیز کے مہنگے معاہدوں کو ہم رو رہے ہیں لیکن ہم کالا باغ ڈیم کی طرف نہیں جا رہے۔ گورنر پنجاب نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ اندرونی و بیرونی عناصر اس منصوبے کے راستے میں رکاوٹ ہیں۔ اس میں کچھ شک نہیں چلیں جو بیرونی عناصر ہیں انہیں تو باہر سے روکیں جو اندرونی عناصر ہیں ان کے تحفظات دور کریں اور جو پھر بھی نہ مانے اس کا بندوبست کرنا لازم ہے کیونکہ اس ملک کے عوام نے بہت مشکلات جھیلی ہیں اب عام آدمی کا حق ہے کہ انہیں سہولت دی جائے ان کی زندگی میں آسانی پیدا کی جائے اور سہولت کے راستے میں روڑے اٹکانے والوں سے ان کی زبان میں بات کی جائے۔ ملک و قوم کو دو بڑے بحرانوں سے بچانے کے لیے ویسے ہی فیصلے کرنے کی ضرورت ہے جیسے ہم نے دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے کے لیے سخت فیصلے کیے تھے، جیسے ہم سمگلنگ روکنے، ذخیرہ اندوزی روکنے اور ڈالر مہنگا کرنے کی گیم کھیلنے والوں کو قابو کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ اسی جذبے کے ساتھ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے کام کیا جائے۔ اس حوالے سے قومی پالیسی اور اتفاق رائے پیدا کرنا تو منتخب حکومتوں کی ذمہ داری تھی لیکن منتخب حکومتوں کی ناکامی کے بعد یہ ذمہ داری اگر نگراں حکومت نبھاتی ہے تو اس سے بڑا کوئی کام نہیں ہو گا۔ ویسے تو نگراں حکومت بھرپور فارم میں ہے جیسے اس نے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کی نجکاری کا فیصلہ کیا ہے ویسے ہی دیگر اہم کاموں کی طرف بھی بڑھنا ہو گا۔ 
بتایا جاتا ہے کہ منتخب حکومتوں کی ناکامی کے بعد نگراں حکومت جسے بلاول بھٹو زرداری نے چیئر ٹیکر کہا تھا انہوں نے پی آئی اے کی نجکاری کا فیصلہ کیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وزیراعظم نے وزارت ہوا بازی کی جانب سے پی آئی اےکو تیئیس ارب روپے دینے کی درخواست بھی رد کر دی۔ حکومت کی طرف سے نجکاری کا فیصلہ ہوتے ہی بینکوں نے پی آئی اے کے لیے قرضہ بھی منظور کر لیا، ایک بینک پی آئی اے کو پانچ ارب روپے کا قلیل المدت قرضہ دے گا اس قرض سے انتہائی ضروری ادائیگیاں کی جائیں گی۔ بتایا جاتا ہے کہ نجکاری کا عمل مکمل ہونے تک پی آئی اے کو آپریشنل رکھا جائے گا۔ امریکہ میں پی آئی اے کا ملکیتی ہوٹل روزویلٹ بھی نجکاری فہرست میں شامل ہے۔ نیشنل بینک نے بھی پی آئی اے کے لیے تیرہ ارب روپے کا قرضہ منظور کیا ہے۔ اصولی طور پر تو یہ کام جمہوریت کی نام نہاد علمبردار سیاسی جماعتوں کو کرنا چاہیے تھا لیکن کسی نے بھی اپنی سیاست کو مشکل میں نہیں ڈالا، اپنے ووٹرز کو ناراض نہیں کیا لیکن ملک کے مسائل میں بے پناہ اضافہ کیا ہے۔ نگراں حکومت کا یہ فیصلہ خوش آئند ہے۔ اداروں کی بہتری اور ملک و قوم کے بہتر مستقبل کے لیے سخت فیصلے کریں۔ ملک سے بڑھ کر کوئی نہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں نے اداروں کو ڈبو کر اپنی سیاست بچائی ہے یہ سلسلہ اب ختم ہونا چاہیے۔ جس جس نے ملک کو نقصان پہنچایا ہے اسے منطقی انجام تک پہنچنا چاہیے۔ یہاں کوئی ملک سے بڑا نہیں ہے۔ نیب ترامیم یا اس حوالے سے عدالتی فیصلے پر شور تو مچایا جا رہا ہے لیکن قوم کو یہ بھی بتا دیں کہ ملک کو لوٹنے والوں کے ساتھ کیا سلوک ہونا چاہیے۔ کیوں لٹیرے آزاد ہوں اور پیٹ بھرنے کے لیے یا بچوں کی دوائی کا بندوبست کرنے یا بوڑھے والدین کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے چھوٹی سی چوری کرنے والا جیل میں سڑتا رہے اور ملک لوٹنے والے آزاد پھرتے رہیں۔ نیب قانون کو ایک طرف رکھ دیں لیکن سیاست دان قوم کو یہ تو بتائیں کہ قافلہ کیوں لٹا۔
 آخر میں شجاع خاور کا کلام
یہاں تو قافلے بھر کو اکیلا چھوڑ دیتے ہیں
سبھی چلتے ہوں جس پر ہم وہ رستہ چھوڑ دیتے ہیں
قلم میں زور جتنا ہے جدائی کی بدولت ہے
ملن کے بعد لکھنے والے لکھنا چھوڑ دیتے ہیں
کبھی سیراب کر جاتا ہے ہم کو ابر کا منظر
کبھی ساون برس کر بھی پیاسا چھوڑ دیتے ہیں
زمیں کے مسئلوں کا حل اگر یوں ہی نکلتا ہے
تو لو جی آج سے ہم تم سے ملنا چھوڑ دیتے ہیں
مہذب دوست آخر ہم سے برہم کیوں نہیں ہوں گے
سگ اظہار کو ہم بھی تو کھلا چھوڑ دیتے ہیں
جو زندہ ہو اسے تو مار دیتے ہیں جہاں والے
جو مرنا چاہتا ہو اس کو زندہ چھوڑ دیتے ہیں
مکمل خود تو ہو جاتے ہیں سب کردار آخر میں
مگر کم بخت قاری کو ادھورا چھوڑ دیتے ہیں
وہ ننگ آدمیت ہی سہی پر یہ بتا اے دل
پرانے دوستوں کو اس طرح کیا چھوڑ دیتے ہیں
یہ دنیا داری اور عرفان کا دعویٰ شجاع خاور
میاں عرفان ہو جائے تو دنیا چھوڑ دیتے ہیں

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...