تکبر سے مراد یہ ہے کہ اپنے آپ کو لوگوں سے بڑا سمجھنا ، اور جابر ہو نا۔
ارشاد باری تعالی ہے :” یہ آخرت کا گھر ہم ان لوگوں کے لیے کرتے ہیں جو زمین میں تکبر نہیں چاہتے اور نہ فساد اور اچھا انجام پرہیز گاروں ہی کے لیے ہے۔ “(سورة القصص)۔
ایک دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا : ” اور کسی سے بات کرنے میں اپنارخسار ٹیڑ ھا نہ کر اور زمین میں اکڑ کر مت چل ، بیشک اللہ تعالی تکبر کرنے والوں اور فخر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا“(سورة القمان)۔
قرآن مجید میں ایک اور جگہ ارشاد ہے :” بیشک جو لوگ میری عبادت کرنے سے تکبر کرتے ہیں وہ عنقریب ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں داخل ہو ں گے “ (سورہ المومن)۔
احادیث مبارکہ میں بھی تکبر کی بہت زیادہ مذمت کی گئی ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہو گا وہ جنت میں نہیں جائے گا۔
حضرت حارثہ بن وھب رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ? نے اہل نار کے بارے میں بتاتے ہوئے فرمایا : ہر سرکش ، بد خلق اور تکبر کرنے والا دوذخی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالی فرماتا ہے کہ عزت میرا تہبند ہے اور کبر و بڑائی میری چادر ہے ، پس جو شخص ان دونوں میں سے ایک کے ساتھ مجھ سے جھگڑے گا تو تحقیق میں اس کو عذاب دو ں گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عزت اور کبر وبڑائی صرف اللہ تعالی ہی کی ذات کے لیے ہے جو ساری کائنات کا خالق و مالک ہے کسی بندے کی اتنی کیا مجال کہ اس ذات کے سامنے اپنی ہستی پر اترا سکے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ آدمی مسلسل تکبر میں مبتلا رہتا ہے یہاں تک کہ سر کش لوگوں میں اس کا نام لکھ دیا جاتا ہے پس اس کو بھی وہ ہی عذاب ہو گا جو ان لوگوں کو ہو گا۔
حضرت ابو بکر ھزلی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ہم ایک مرتبہ حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک شخص وہاں سے گزرا۔ اس کا سارا جسم ریشمی جبوں سے ڈھانپا ہو اتھا اور تکبر سے چل رہا تھا۔ آپ نے اس کی طرف دیکھا اور فرمایا :اف کس قدر ناک اٹھا رکھا ہے ، پہلو دوھرا کیے اور رخسار ٹیڑھا کیے ہوئے چل رہے ہواور پہلوکو دیکھے جا رہے ہو۔ پھر آپ نے فرمایا : اے احمق تم اپنے ان پہلوﺅں کو دیکھ رہاہے جنہوں نے خدا کا حکم نہ مانا۔ آپ نے فرمایا : خدا کی قسم اپنی فطری چال چلے یا دیوانوں کی طرح گرتے پڑتے چلے تو تیرا اس تکبر کے ساتھ چلنے سے اس کا چلنا بہتر ہے۔